کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کا دار و مدار اس کی معاشرتی اقدار اور رویوں پر ہوتا ہے۔ ایک صحت مند، پُرامن اور خوشحال معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان برائیوں کا خاتمہ کریں جو اجتماعی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں اور ایسی مثبت اقدار کو فروغ دیں جو انسانیت کی بھلائی اور فلاح و بہبود کا سبب بنیں۔
اصلاحِ معاشرہ چند بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں اخلاقیات، تعلیم، سماجی انصاف، رواداری، اور انسانی حقوق شامل ہیں۔ اگر ہم ان اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو ایک بہتر سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
معاشرتی اصلاح حکومت یا چند اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہر فرد اپنی ذات سے اصلاح کا آغاز کرے، اپنے گھروں، محلوں اور دفاتر میں مثبت طرزِ عمل اپنائے، تو یہ نیکی پورے معاشرے میں پھیل سکتی ہے۔
بیشک ہم سب کو اس زمہ داری میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور نہ صرف خود بہتر انسان اور بہترین انسان بننے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ اس کردارکو اپنے عمل کے ساتھ ترویج میں بھی عمل میں لانا چاہیے۔ اس معاملے میں ایک مخصوص صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے آج نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں شہریار عاصم نے کہا کہ گو کہ ہرشخص کو اصلاحِ معاشرہ کی کوشش کرنی چاہیے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ پلٹ کر جواب دے دیتے ہیں جبکہ کہنے والے کی نیت یہ ہوتی ہے کہ سامنے والا کسی بھی ممکنہ نقصان سے بچ جائے۔
انہوں نے مفتی محسن الزماں سے سوال کیا کہ ’کیا برا آدمی کسی کی اصلاح کرسکتا ہے؟ شریعت کیا کہتی ہے؟
مفتی محسن الزماں نے کہا کہ ’بیشک ہر انسان کو برائیوں کے خاتمے اور نیکی کی تلقین ضرور کرنی چاہیے لیکن اس سے پہلے خود پر کام کرنا چاہیے اور خود کو ایک اچھے اور نیک انسان کے قالب میں ڈھالنا چاہیے۔ اور پھر دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔‘
اس کے باوجود کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ خویا خوبی ہم میں نہیں ہوتی اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم آگے بھی اچھی بات نہیں پہنچا سکتے۔ ضرور عمل میں لانا چاہئے اور لوگوں کی بھلائی کے لیے انہیں کہنا زیادہ بہتر اور اللہ کی رضا کا زریعہ ہوگا۔