آج نیوز کے سحری ٹرانسمیشن میں ایک دلچسپ گفتگو نے اس موضوع کو اجاگر کیا کہ کیا مواد تخلیق کرنا یا ڈیجیٹل کریئیٹر بننا واقعی آسان کام ہے؟ میزبان شہریار عاصم اور مہمان خاتون حرا نذیر کے تبادلہ خیال سے واضح ہوا کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں یہ پیشہ نہ صرف تخلیقی صلاحیتوں کا تقاضہ کرتا ہے بلکہ مارکیٹنگ اور معیار کی یقین دہانی بھی ایک اہم چیلنج ہے۔
پروگرام کے میزبان شہریار عاصم نے ایک نقطہ اٹھاتے ہوئے پوچھا، ’کونٹینٹ بنانا یا کریئیٹر بننا آسان کام ہے؟‘
جس پر حرا نذیر نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’بہت مشکل کام ہے آجکل کے دور میں، کیونکہ جو پروموشنل کمپیئن وغیرہ جو مل رہی ہوتی ہیں وہ آپ سے امید رکھتے ہیں کہ آپ اس کو بہت بہترین کر کے اور بہت مثبت نقطہ نظر کے ساتھ لے کے چلو گے۔ اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو جو برینڈز اپروچ کر رہے ہوتے ہیں، ان کی مصنوعات اس لحاظ سے یا اس سطح کی نہیں ہوتیں جس طرح وہ پروموٹ کروانا چاہتے ہیں۔ تو یہ بڑا مشکل معاملہ ہوجاتا ہے کہ کوالٹی وہ ہے نہیں اور اگر ہم اسے اسی معیار پر شو نہ کریں تو یہ بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔‘
آج کے زمانے میں جہاں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے مواد تخلیق کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں، وہاں کریئیٹرز پر مسلسل دباؤ اور توقعات کا بوجھ بھی بڑھ گیا ہے۔ برانڈز کی جانب سے ملنے والی پروموشنل مہم اکثر اس بات کی امید رکھتی ہیں کہ کریئیٹرز نہ صرف تخلیقی مواد تیار کریں بلکہ اس مواد کے ذریعے برانڈ کی شناخت اور مصنوعات کی کوالٹی کو بھی اجاگر کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اکثر برانڈز کی فراہم کردہ مصنوعات دراصل وہ معیار پیش نہیں کرتیں جس کی توقع کی جاتی ہے، جس سے ایک مشکل صورتحال جنم لیتی ہے۔
اس گفتگو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ،مصنوعات اور مارکیٹنگ کمپینز کے معیار اور کریئیٹرز کی تخلیقی صلاحیتوں کے درمیان توازن قائم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
مواد کی تخلیق صرف تصویر یا ویڈیو بنانے تک محدود نہیں بلکہ اس کی پیشکش اور اس کے پس منظر میں چھپی حقیقت بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ڈیجیٹل دور میں جہاں مقابلہ ہر لمحہ شدت اختیار کر چکا ہے، وہاں مثبت اور تخلیقی انداز اپنانا ایک ضرورت بن چکی ہے۔
اس گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کریئیٹر بننا ایک ایسا شعبہ ہے جس میں نہ صرف تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ مارکیٹنگ، برانڈ مینجمنٹ اور معیار کی یقین دہانی کے شعبوں میں بھی مہارت درکار ہوتی ہے۔
اگرچہ یہ پیشہ آزادی اور تخلیقی اظہار کا بہترین ذریعہ فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ جڑے چیلنجز کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ نئے دور کی اس جدوجہد میں کامیابی کا راز یہی ہے کہ ہر کریئیٹر اپنی صلاحیتوں کو مستقل نکھارتے ہوئے مارکیٹ کی توقعات اور موجودہ معیار کا بہترین امتزاج پیش کرے۔
یہ گفتگو ہمیں یہ سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ آج کے دور میں کریئیٹرز کو کس طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں کس طرح اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ مارکیٹنگ اور معیار کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔
حرا نزیر نے اپنے پروفیشن کی ابتدا کا بھی بتایا کہ انہیں اسکول اور کالج کے زمانے سے ہی میزبانی کا بے حد شوق تھا۔ جب تعلیمی اداروں میں مختلف تقریبات، فئیر ویل پارٹیاں اور سالانہ پروگرام منعقد ہوتے تھے، تو انہیں میزبانی کے لیے منتخب کیا جاتا تھا۔ ان کی صلاحیتوں کو سراہا بھی جاتا تھا، اور جب دوست، احباب اور رشتہ دار حوصلہ افزائی کرتے تو مزید آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔ وہ چاہتی تھیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے رابطہ قائم کریں، اور یہی شوق انہیں سوشل میڈیا کی طرف لے آیا۔
خاص طور پر کووڈ کے دوران، جب دنیا بھر میں لوگ گھروں میں محدود ہو گئے، تو سوشل میڈیا کے استعمال میں بے حد اضافہ ہوا۔ اسی وقت انہوں نے محسوس کیا کہ یہ ایک مؤثر پلیٹ فارم ہے، جسے مثبت انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پیجز بنائے، اور دیکھتے ہی دیکھتے اس میدان میں آگے بڑھنے لگیں۔ ان کی ترقی کا یہ سفر ابھی تک جاری ہے۔
اسی گفتگو کے دوران شہریار عاصم نے حرا سے سوشل میڈیا پر موجود غیر معیاری مواد کے حوالے سے سوال کیا کہ آج کل معاشرے میں یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے کہ لوگ غیر معیاری اور بے تکا مواد بڑی تعداد میں شیئر کر رہے ہیں، اور حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی ویڈیوز کو بہت زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد ان پر کمنٹس بھی کر رہی ہے اور ویوز بھی بے حد آ رہے ہیں۔ آپ کیا سمجھتی ہیں، اس سے معاشرے پر کتنا برا اثر پڑ رہا ہے؟
اس سوال پر حرا نزیر نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ واقعی، اس سے معاشرے پر بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس میں تبدیلی آنی چاہیے۔ کیونکہ جب لوگ دوسروں کو مشہور ہوتا دیکھتے ہیں یا انہیں سراہا جاتا ہے، تو وہ انہیں اپنا رول ماڈل بنا لیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر مثبت سوچ اور مثبت کاموں کو فروغ دیا جائے۔ جو لوگ اس پلیٹ فارم کو پروفیشن کے طور پر اپنا رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اچھے اور معیاری مواد پر توجہ دیں تاکہ دیکھنے والے بھی مثبت اثرات حاصل کریں۔
شہریار عاصم نے اپنے ناظرین اور عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ بھی درخواست کی کہ جناب آپ لوگ بھی غیر معیاری مواد پر واہ واہ نہ کیا کریں کمنٹس نہ کیا کریں کیونکہ اس کے بڑے منفی اثرات لوگوں پر پڑتے ہیں اورمعاشرے میں تہزیب اور حسن اخلاق کے معیار متاثر ہوتے ہیں۔