سینئر وکیل اختر حسین نے کہا ہے کہ حالیہ عدالتی تقرریوں سے متعلق تنازعات کی بنا پر مزید کام جاری نہیں رکھ سکتا، ہم چار پانچ سال تک کوشش کرتے رہے کہ جوڈیشل کمیشن کے رولز میں ترمیم ہو۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ کی میزبان منیزے جہانگیر نے سینئر وکیل اختر حسین سے جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کی وجہ پوچھی جس پر اختر حسین نے کہا کہ سوال کا جواب دینے کے لیے استعفے میں تو اتنا ہی لکھا جاسکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ استعفی میں کوئی مثالیں نہیں دی جاسکتیں، میں نے استعفی میں لکھا کہ حالیہ عدالتی تقرریوں سے متعلق تنازعات کی بنا پر مزید کام جاری نہیں رکھ سکتا۔
اختر حسین نے کہا کہ ایک سوال کے جواب میں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا کہ 18 ویں اور 19 ویں ترمیم کے تحت جو جوڈیشل کمیشن تھا 26 ویں ترمیم سے پہلے، پاکستان بار کونسل نے مجھے 3 مرتبہ بلا مقابلہ منتخب کیا کیونکہ ہمارے بارز کے الیکشن میں جو مخالف گروپ رہتا ہے، اس نے بھی میرے انتخاب پر اعتراض نہیں کیا، میں دراصل بلا مقابلہ بار کی نمائندگی کرتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا پچھلا جو کمیشن تھا اس کے اندر ہم چار پانچ سال تک کوشش کرتے رہے کہ جوڈیشل کمیشن کے رولز میں ترمیم ہو، امتیازی سلوک ختم ہو، سینیارٹی کے اصول نافذ کیا جائے، اراکین کے ساتھ بامعنی مشاورت کی جائے اور بار کونسل کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے، ججز کی اکثریت تھی، جن میں 6 ججز تھے اور 3 دوسرے نمائندہ وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور بار کونسل کا نمائندہ شامل تھے، ججز اپنا فیصلہ کرکے آتے تھے اور انتخاب اسی طرح سے ہوجاتا تھا جس پر ہم کچھ بھی اعتراضات کریں۔
اختر حسین کا مزید کہنا تھا کہ ان سارے پریڈ میں کوئی بھی چیف جسٹس ان رولز میں ترمیم کے لیے تیار نہیں تھے اور کوئی امتیازی سلوک چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے، اپنی ججمنٹ کے ذریعے سے پارلیمانی کمیٹی کو غیر مؤثر کردیا تھا، تو پھر ہماری بار کونسلز کی جانب سے یہ تجاویز سامنے آنے لگیں کہ پارلیمنٹری کمیٹی کے نمائندوں کو کمیشن میں شامل کریں آئینی ترامیم ہونی چاہیئے، یہ بھی ہمارا مطالبہ تھا کہ وفاقی آئینی عدالت بنائی جانی چاہیئے۔
26 ویں ترمیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر وکیل نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کے پہلے اجلاس سے ایک دو دن پہلے میں کہا تھا کہ یہ کمیشن جس میں نان جوڈیشل ممبران کی اکثریت ہے، اگر یہ بھی اکثریت کی بنیاد پر ووٹنگ سے فیصلے کریں گے تو یہ نظام بھی نہیں چلے گا، اس پر بہت سارے سوالات اٹھیں گے۔
یاد رہے کہ جوڈیشل کمیشن کے رکن اور سینئر وکیل اختر حسین نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا تاہم انہوں نے اپنا استعفیٰ چیئرمین جوڈیشل کمیشن جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھجوا دیا تھا۔
اختر حسین نے استعفے میں مؤقف اپنایا تھا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہوں، پاکستان بار کونسل نے مجھے 3 مرتبہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا رکن نامزد کیا، اپنی ذمہ داریاں اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق انجام دیتا رہا۔
انہوں نے اپنے فیصلے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ حالیہ عدالتی تقرریوں سے متعلق تنازعات کی بنا پر مزیدکام جاری نہیں رکھ سکتا، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی رکنیت سے مستعفی ہوتا ہوں۔
انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ عدلیہ کی ترقی، خود مختاری کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھوں گا، چیئرمین پاکستان بار کونسل کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔