سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اب کی بار بھی بل اور منی بل کنفیوژن ہے، شبلی فراز نے کہا کہ کوئی بھی چیز جوٹیکسیشن سے متعلق ہو وہ منی بل ہے، ججز سے متعلق بل پر بھی کہا گیا یہ منی بل نہیں، قانون سازی پر کنفیوژن سے نکلنے کیلئے ہی پارلیمنٹ موجود ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کی صدارت سلیم مانڈوی والا نے کی۔ وزیر خزانہ اورنگزیب اور چیئرمین ایف بی اجلاس میں شریک تھے، قائمہ کمیٹی اجلاس میں انکم ٹیکس ترمیمی بل 2025غور کیلئے پیش کیا گیا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ آئین میں بل سے متعلق بہت واضح تعریف موجود ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئین ریڈ سے متعلق تو کوئی ٹیکس تبدیل نہیں ہو رہا ہے۔ جس پر وزیرخزانہ اور چیئرمین ایف بی آر نے جواب دیا کہ ٹیکس میں تبدیلی ہورہی ہے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس بل سے متعلق صورتحال واضح نہیں ہے، چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ بل سے متعلق اٹارنی جنرل سے صورتحال پرمؤقف لے لیں، آئین میں لکھا ہے کہ بل پراسپیکر کی رائے لی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بینکنگ کمپنیز سے متعلق ٹیکس ریٹ تبدیل کئے گئے، سال 2022 بینکنگ کمپنیز سے متعلق ریٹ 39 فیصد تھے، 2025 سے بینکنگ کمپنیز کیلئے 44 فیصد مقرر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بینکنگ کمپنیز کیلئے اب ٹیکسز سالانہ بنیادوں پر مقررکئے گئے، سال2026 میں ٹیکس ریٹ بتدریج 43فیصد سال2027 میں 42 فیصد ہوگا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ بینکوں نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے شرح مقرر تھی، حکومت کو پرانے قانون کے تحت 70 ارب سالانہ ٹیکس کا نقصان تھا۔
پاک ایران بارڈرپر اشیاءلانے والے 600 ٹرک کے پھنسنے کے معاملہ پر بحث
اس موقع پر پاک ایران بارڈرپر اشیاءلانے والے 600 ٹرک کے پھنسنے کا معاملہ بھی زیربحث لایا گیا، ٹرکوں کے پھنسے ہونے کا معاملہ سینیٹر منظور کاکڑ کی جانب سے لایا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بارڈرز کے حوالےسے پہلی بار سخت اقدامات لئے گئے ہیں، پہلی دفعہ چینی افغانستان اسمگل کی بجائے ایکسپورٹ ہوئی ہے۔
سینیٹر منظورکاکڑ نے کہا کہ اس بار جو چینی افغانستان گئی اس پر ہم مطمئن ہیں، بارڈر سے فیول بند کر دیا گیا، ٓ4 ہزار افراد روزگار کماتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ اب 4 ہزار کی بجائے 200 افراد فیول کا بارڈر سے کام کرتے ہیں، یہ افراد کسٹم والوں کو پندرہ کی جگہ تیس ہزار دیتے ہیں، منی لانڈرنگ تھرو بینکنگ سیکٹر اسی ملک میں ہوئی ہے، سولر سے متعلق اسکینڈل اسی کمیٹی میں زیر بحث رہا ہے۔
ایف بی آر حکام نے کہا کہ امپورٹرز کے حوالے سے پالیسی کامرس منسٹری دیکھتی ہے۔
پاک ایران بارڈر پر ٹریڈ کے حوالے سے تاجروں نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی۔ تاجر نے کہا کہ میں 55 سال ایکسپورٹ امپورٹ کر رہا ہوں، روزانہ تیس سے چالیس ٹرک بھجواتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہی مال کے بدلے مال ملتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جو مال وہاں سے آئے گا وہ بھی ایرانی ہونا چاہیے، ہم تو مال کے بدلے مال کی ایکسپورٹ امپورٹ کرتے ہیں بینکنگ نظام نہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ بارڈر ٹریڈ پر ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایران سے کسی اور ملک کا مال آئے، بارڈر ٹریڈ پالیسی کے تحت جس ملک سے مال آئے گا وہ وہیں کا میڈ ہوگا۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ ایس آر او بارڈر ٹریڈ کیلئے انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہے، کامرس کے ایس آر او پر کسٹم عملدرآمد نہیں کرتی ہے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کسٹم کی عادت ہے وہ اپنے مینڈیٹ سے بڑھ کر کرتے ہیں، کسٹم کو کہا جائے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں۔
وزیر خزانہ محمداورنگزیب نے کہا کہ معاملہ واقعی پیچیدہ ہے جسے آسان ہونا چاہیے، کامرس کو ایس آر او میں تبدیلی اور آسانی کیلئے کہا جائے گا۔
قائمہ کمیٹی نے تاجرکو گڈز ڈکلیئریشن دینے کی بعد ٹرکوں کو چھوڑنے کی ہدایت کر دی۔
چیئر مین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ گڈز ڈکلیئریشن مل جائے گا ان ٹرکوں کو چھوڑ دیا جائے گا، بینک ٹیکس معاملہ پر بینکنگ کورٹ میں بھی گئے ہوئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بینکوں کے منافع پر ٹیکسز کی شرح بڑھائی گئی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹیکسیشن پر اب بینک ڈیپازٹرز کو کہہ رہے کہ پیسے نکلوا لیں، بل سے متعلق واضح ہو گیا ہے کہ یہ منی بل نہیں، قائمہ کمیٹی نے انکم ٹیکس ترمیمی بل 2025 سے متعلق معاملہ نمٹا دیا۔
قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم کا اجلاس، ASPIRE پروگرام کی پیشرفت پر بریفنگ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم کے اجلاس میں ASPIRE پروگرام کی پیشرفت پر بریفنگ دی گئی۔
حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 200 ملین ڈالرز کے بجٹ سے ملک بھر میں اسکولوں کو سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، جبکہ 67,168 طلبہ ملٹی ماڈل پروگرامز میں داخلہ لے چکے ہیں۔ کمیٹی نے پروگرام کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے تعلیمی ترقی کے اقدامات پر زور دیا۔
قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کا اجلاس چیئرپرسن بشریٰ انجم بٹ کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزارت تعلیم کی جانب سے ASPIRE پروگرام کے نفاذ اور بجٹ پر بریفنگ دی گئی، تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے اہم اقدامات پر غور کیا گیا۔
فیڈرل ایجوکیشن سیکرٹری محی الدین احمد وانی نے بتایا کہ ASPIRE پروگرام کا آغاز کووڈ کے دوران ہوا، جس کے لیے 200 ملین ڈالرز کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
پروگرام کے تحت بلوچستان کو 16 فیصد، سندھ کو 25 فیصد، پنجاب کو 40.50 فیصد اور خیبر پختونخوا کو 18.50 فیصد حصہ دیا گیا۔
وزارت تعلیم کے مطابق پروگرام کے تحت قومی اسکول ہیلتھ اینڈ سیفٹی پروٹوکولز اپنائے گئے، پسماندہ علاقوں میں فاصلاتی تعلیم کے فروغ کے لیے اہم اقدامات کیے گئے، 67,168 طلبہ نے ملٹی ماڈل پروگرامز میں داخلہ لیا، جن میں 33,673 لڑکے 33,495 لڑکیاں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فاصلاتی تعلیمی مواد کو صنفی حساس اور ایس آئی اوز سے ہم آہنگ بنایا گیا، جبکہ قومی فاصلاتی تعلیمی حکمت عملی کی منظوری بھی دی گئی ۔ اب تک 50 ہزارطلبہ فاصلاتی تعلیمی مہارتیں حاصل کر چکے ہیں۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ کم از کم 20 ہزارسرکاری اسکولوں کو صفائی کی کٹس فراہم کی گئیں، بلوچستان کے 98 اسکولوں میں واش روم کی سہولیات بہتر بنائی گئیں، اور 292 اضافی کلاس رومز کی تعمیر جاری ہے۔
اساتذہ کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی گئی، 716 اساتذہ کو فاصلاتی تعلیم کے تربیتی پروگرام کے تحت ٹریننگ دی گئی۔ 155 اسکولوں کو مفت وائی فائی فراہم کیا گیا، جبکہ 960 اسکولوں میں صفائی اور ایم ایچ ایم کٹس تقسیم کی گئیں، جن سے 83,838 طلبہ مستفید ہوئے۔
داخلہ مہم کے تحت 57 ہزار 256 آؤٹ آف اسکول بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخل کیا گیا، جبکہ 107 اسکولوں کو لرننگ اور سائنس آئی ٹی لیبز کا سامان فراہم کیا گیا، جس سے 39,664 طلبہ مستفید ہو رہے ہیں۔
کمیٹی نے ASPIRE پروگرام کے تحت حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سراہا اور تعلیمی بہتری کے لیے مزید اقدامات پر زور دیا۔