ہم نے ہمیشہ شہد کی مکھیوں کو محنتی، منظم اور فطرت کے بہترین انجینئرز کے طور پر دیکھا ہے، لیکن حال ہی میں سائنسدانوں نے ان کی زندگی کے کچھ ایسے راز فاش کیے ہیں جو شاید آپ کو حیران کر دیں. اور یہ سب ممکن ہوا محض ننھے منے’ کیو آر’ کوڈز کی بدولت، جو ان مکھیوں کی پشت پر چسپاں کیے گئے۔
مکھیوں کی نقل و حرکت کا انوکھا مشاہدہ
امریکہ کی پین اسٹیٹ یونیورسٹی (PSU) کے محققین نے شہد کی مکھیوں کی روزمرہ کی سرگرمیوں کو ٹریک کرنے کے لیے ایک جدید تکنیک اپنائی، جس میں انہوں نے ہزاروں مکھیوں کی پشت پر باریک کیو آر کوڈز چسپاں کیے اور ایک خودکار امیجنگ سسٹم کے ذریعے ان کے آنے جانے کے اوقات ریکارڈ کیے۔
اس تحقیق سے یہ انکشاف ہوا کہ زیادہ تر مکھیاں چند منٹ کے لیے باہر جاتی ہیں، لیکن کچھ مکھیاں دو گھنٹے تک خوراک کی تلاش میں رہتی ہیں۔
کیا شہد کی مکھیاں صرف خوراک کی تلاش میں جاتی ہیں؟
سائنسدانوں کے مطابق، طویل دورانیے تک باہر رہنے والی مکھیاں صرف خوراک ہی نہیں، بلکہ شاید اپنے ماحول کا جائزہ لینے یا نئی جگہیں دریافت کرنے میں بھی مصروف رہتی ہیں۔ کچھ مکھیاں واپس آتی ہیں، جبکہ کچھ کبھی لوٹ کر نہیں آتیں۔ یہ حقیقت حیران کن ہے اور شہد کی مکھیوں کی زندگی کے بارے میں ہمارے روایتی تصورات کو چیلنج کرتی ہے۔
مکھیوں کی عمر28 دن یا ہم غلط سمجھے؟
ہم ہمیشہ یہ سنتے آئے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کی عمر تقریباً 28 دن ہوتی ہے، مگر یہ تحقیق کچھ اور ہی کہتی ہے۔ پی ایس یو کی ماہر روبن انڈرووڈ کے مطابق، مکھیوں کو دو ہفتے کی عمر میں خوراک کی تلاش کے لیے بھیجا جاتا ہے، اور وہ چھ ہفتے تک متحرک رہتی ہیں۔ یعنی، مکھیوں کی عمر ہماری توقع سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اے آئی ماڈلز بھی انسانوں کی طرح بڑھاپے کا شکار ہو کر سمجھ بوجھ کھونے لگے
چھوٹے سے ’کیو آر‘ کوڈز اور بڑا چیلنج
یہ تجربہ آسان نہیں تھا۔ محقق مارگریٹا لوپیزاُریبے کے مطابق، مکھیوں پر’ کیو آر’ کوڈ چپکانا انتہائی باریک بینی کا کام تھا۔ زیادہ گلو لگانے سے مکھی کے پروں اور جسم پر چپکنے کا خطرہ تھا، جبکہ کم گلو لگانے سے کوڈ اتر سکتا تھا۔ کافی مشق کے بعد ہی ٹیم نے اس مہارت کو حاصل کیا۔
32 ہزار مکھیوں کی نگرانی، جدید سائنسی پیش رفت
محققین نے ایک ایسا جدید نظام بنایا جس سے وہ 24 گھنٹے مکھیوں کی آمدورفت پر نظر رکھ سکیں۔ یہ روایتی مشاہداتی طریقوں سے کہیں زیادہ کارگر ثابت ہوا اور 32 ہزار سے زائد مکھیوں کی حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرنے میں مدد ملی۔
یہ تحقیق صرف مکھیوں کی نقل و حرکت کو سمجھنے تک محدود نہیں بلکہ اس کے عملی فوائد بھی ہیں۔ محققین کا ماننا ہے کہ اگر شہد کی مکھیوں کو غذائیت سے بھرپور علاقوں میں رکھا جائے تو وہ قریبی فاصلے تک ہی خوراک تلاش کریں گی۔ اس تحقیق سے شہد کی پیداوار کے معیار کو بہتر بنانے اور نامیاتی (Organic) شہد کی کاشتکاری کے نئے معیارات طے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اے آئی ٹیکنالوجی اب شادی شدہ جوڑوں کی جھگڑے ختم کرائے گی
اگر شہد کی مکھیوں کو ایسے علاقوں میں رکھا جائے جہاں خوراک وافر ہو، تو شاید وہ زیادہ فاصلے تک جانے کی بجائے قریب ہی اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ یہ خیال ’بی کیپرز‘ (Beekeepers) کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ مکھیوں کی سرگرمیوں کو مزید بہتر طریقے سے سمجھ کر انہیں مناسب مقامات پر رکھ سکتے ہیں۔
یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ شہد کی مکھیاں نہ صرف ایک حیرت انگیز مخلوق ہیں بلکہ ان کے طرزِ زندگی میں ابھی بہت سے ایسے راز چھپے ہیں جنہیں سمجھنا باقی ہے۔ اور شاید اگلی بار جب آپ شہد کا ایک چمچ لیں، تو آپ یہ ضرور سوچیں گے کہ اس ایک قطرے کے پیچھے کتنی محنت، کتنا سفر، اور کتنا سائنسی تجسس چھپا ہے۔