کہتے ہیں کہ زبان سے نکلی بات اور کمان سے نکلا تیر کبھی واپس نہیں آتا۔ مگر موجودہ دور میں یہ بات کچھ یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ ’لائیو شو میں کیا گیا مذاق اور سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی ویڈیو کبھی واپس نہیں آتی۔‘
کچھ ایسا ہی ہوا جب بھارتی یوٹیوبر رنویر الٰہ آبادیہ نے ’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘ کے ایک ایپی سوڈ میں ایک ایسا سوال کر دیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے انٹرنیٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ کامیڈی اور مزاح میں ایک حد ہونی چاہیے، لیکن بظاہر اس حد کو پار کرنا کچھ لوگوں کے لیے معمول بن چکا ہے۔ شو کے دوران، رنویر نے ایک شو میں شریک مہمان سے ایسا غیر اخلاقی اور ناپسندیدہ سوال پوچھ لیا کہ سوشل میڈیا صارفین کا پارہ چڑھ گیا۔ سوال کی نوعیت اتنی غیر مہذب تھی کہ لوگ حیران رہ گئے کہ یہ سب کچھ ایک عوامی پلیٹ فارم پر کیسے نشر ہو سکتا ہے۔
رنویر کی لگائی ہوئی آگ میں ایک اور بھارتی کامیڈین پھنس گئے
یہی نہیں، رنویر نے 2 کروڑ روپے کے عوض ایک غیراخلاقی حرکت کرنے کی تجویز بھی دی، جس پر شو کے دیگر شرکا اور ججز آشیش چنچلانی، جسپریت سنگھ اور اپوروا مکھیجا بے اختیار قہقہے لگاتے رہے۔ مگر ناظرین کے لیے یہ کوئی ہنسی مذاق کی بات نہ تھی، یہ تو سراسر حد سے تجاوز تھا۔
یوٹیوبرز کے خلاف سخت کارروائی کی جائے کا مطالبہ زور پکڑ گیا
یہ سب تب مزید شدت اختیار کر گیا جب ویڈیو کلپ وائرل ہوگیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس نامناسب سوال پر غصے کا اظہار کیا، یہاں تک کہ سیاستدان بھی اس بحث میں کود پڑے۔ ہر طرف مذمت کا طوفان تھا اور عوام کا مطالبہ تھا کہ ان یوٹیوبرز کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
معاملہ بڑھا تو شو کے میزبان سمے رائنا کو مجبوراً ’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘ کی تمام ویڈیوز یوٹیوب سے ہٹانی پڑیں۔ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ تنازع اب پولیس کے دروازے پر دستک دے چکا تھا۔ رنویر اور سمے کے خلاف پولیس میں شکایات درج ہو چکی تھیں، اور دیگر انفلوئنسرز کو بھی تفتیش کے لیے طلب کر لیا گیا۔
اندر کی کہانی، سیٹ پر کیا ہوا تھا؟
جہاں ایک طرف انٹرنیٹ پر غم و غصہ تھا، وہیں دوسری طرف ایک حاضرین میں موجود شخص نے سچائی کی ایک الگ ہی کہانی بیان کی۔ موہت نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے انکشاف کیا کہ رنویر نے مذاق کے فوراً بعد اپنی غلطی کا احساس کر کے معافی مانگ لی تھی۔
رنویر الہ آبادیا خود پر درج متعدد ایف آئی آر کیخلاف عدالت پہنچ گئے
موہت کے مطابق، رنویر نے شو میں شریک مہمان کو گلے لگا کر نہ صرف معذرت کی بلکہ کئی بار اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ’کمفرٹیبل‘ محسوس کرے۔ یہی نہیں، شو کے میزبان سمے رائنا نے بھی اس بچے کو تسلی دی اور کہا، ’یو کِلڈ اِٹ بھائی‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی مہمان جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، وہ شو جیت بھی گیا، اور جیت کے بعد سب نے جشن بھی منایا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر متاثرہ شخص خود خوش تھا اور اس نے کسی شکایت کا اظہار نہیں کیا، تو پھر عوامی ردعمل اتنا شدید کیوں؟ کیا یہ واقعی اخلاقیات کی پاسداری کے لیے تھا یا محض سوشل میڈیا کی بھڑکائی ہوئی آگ؟
انڈیا گاٹ لیٹنٹ کی تمام ویڈیوز یوٹیوب سے ڈیلیٹ
کیا سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلانے والے افراد کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی واقعے کا مکمل سیاق و سباق جانے بغیر کسی کو ’کینسل کلچر‘ کا نشانہ بنانا کہاں تک درست ہے؟
اس تنازعے کا کیا نتیجہ نکلے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر اتنا ضرور ہے کہ رنویر اور سمے جیسے یوٹیوبرز کو اب اپنی کامیڈی کی حدود کا زیادہ دھیان رکھنا ہوگا۔ کیونکہ مزاح میں اگر وقار، حساسیت اور اخلاقیات کی آمیزش نہ ہو تو وہ تفریح کے بجائے آگ بن سکتا ہے۔