چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) وفد کی حالیہ ملاقات نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا یہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے یا نہیں۔ ماہرین اور حکومتی عہدیداروں کے درمیان اس پر مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔
منگل کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ملاقات آئی ایم ایف کے دائرہ کار میں آتی ہے اور قانون کی حکمرانی اس کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ان کے مطابق لا اینڈ جسٹس کمیشن، جو سپریم کورٹ کا ایک ذیلی ادارہ ہے، عدالتی اصلاحات اور جوڈیشل پالیسی پر کام کرتا ہے، اور پہلے بھی بین الاقوامی اداروں کے ساتھ رابطے میں رہا ہے۔ وزیر قانون نے واضح کیا کہ عدالتی خودمختاری اور ججز کی تقرری جیسے آئینی معاملات میں آئی ایم ایف کی کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔
تاہم، پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ”بی بی سی“ سے گفتگو کرتے ہوئے اس ملاقات کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ آئی ایم ایف کا مینڈیٹ ایسا نہیں کہ وہ کسی ملک کے چیف جسٹس سے ملاقات کرے اور تفصیلی سوالات کرے۔ ان کے مطابق ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آئی ایم ایف نے سپریم کورٹ کی سطح پر معاملات کا جائزہ لیا ہو۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق، آئی ایم ایف کا موجودہ وفد صرف بدعنوانی سے متعلق ایک مخصوص رپورٹ تیار کر رہا ہے، جبکہ سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کا جائزہ لینے کے لیے ایک اور وفد اگلے دو سے تین ہفتوں میں پاکستان کا دورہ کرے گا، جس کی بنیاد پر قرض کی اگلی قسط جاری کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب، اقتصادی تجزیہ کار خرم حسین نے برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں اس مؤقف کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات کسی بھی طرح اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے، کیونکہ پاکستان نے سات ارب ڈالر کے آئی ایم ایف معاہدے کے تحت اصلاحاتی جائزوں پر اتفاق کر رکھا ہے۔ اُن کے مطابق، آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت پاکستان عدالتی اصلاحات کا بھی پابند ہے۔
خیال رہے کہ آئی ایم ایف وفد ایک ہفتے کے دورے پر پاکستان آیا ہے اور چھ مختلف شعبوں میں بدعنوانی کے خاتمے کے اقدامات کا جائزہ لے رہا ہے۔ حکام کے مطابق، یہ وفد مالیاتی گورننس، سینٹرل بینک گورننس، مالیاتی شعبے، مارکیٹ ریگولیشن، قانون کی حکمرانی اور منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات پر اپنی رپورٹ مرتب کرے گا۔
وفد نے عدلیہ، اسٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ اور ریونیو، ایس ای سی پی سمیت دیگر اہم اداروں کے حکام سے بھی ملاقاتیں طے کر رکھی ہیں۔