Aaj Logo

شائع 06 فروری 2025 02:17pm

جسٹس منصور علی شاہ کی عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی دور کا خطرہ نہیں بلکہ ایک موجودہ اور بڑھتا ہوا بحران ہے، جو بالخصوص عالمی جنوب کے ممالک کے لیے سنگین نتائج کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے پانچ ممالک میں شامل ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔

کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ”بریتھ پاکستان“ کے عنوان سے منعقدہ عالمی موسمیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تباہی کے تناظر میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے اور دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید موسمی حالات، گلیشیئرز کے پگھلاؤ، پانی کی قلت اور تباہ کن سیلابوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

پاکستان پر موسمیاتی اثرات

جسٹس منصور علی شاہ نے 2022 کے تباہ کن سیلابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قدرتی آفت نے ملک کے ایک تہائی حصے کو ڈبو دیا تھا، جس کے نتیجے میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور پاکستان کو 30 ارب ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان ہندوکش ہمالیہ گلیشیئرز کے قریب واقع ہے جو خطرناک حد تک تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے دریائے سندھ اور ملکی زرعی نظام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شدید گرمی کی لہر، خشک سالی اور جیکب آباد جیسے علاقوں میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد درجہ حرارت بعض مقامات کو ناقابل رہائش بنا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، جبکہ توانائی اور پانی کے وسائل پر بھی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ماحولیاتی انصاف کے لیے 9 ستون

جسٹس منصور علی شاہ نے ماحولیاتی انصاف کے لیے 9 نکاتی ایجنڈا پیش کیا، جس میں موافقت، نقصان اور تباہی پر توجہ کو اولین ترجیح قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو فوری طور پر تخفیف کی بجائے ان نقصانات کے ازالے پر توجہ دینی چاہیے جن سے وہ براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔

انہوں نے ماحولیاتی انصاف کے لیے عدلیہ کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک مضبوط، بااختیار اور آزاد عدلیہ ناگزیر ہے، تاکہ موسمیاتی انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ آزاد عدلیہ تیزی سے کمزور ہو رہی ہے، جو ماحولیاتی انصاف کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

ماحولیاتی چیلنجز کے حل کے لیے اقدامات

جسٹس منصور علی شاہ نے اس امر پر زور دیا کہ موسمیاتی مالیات، قدرتی وسائل کے تحفظ اور ماحولیاتی سائنس کو زیادہ قابل رسائی بنایا جائے تاکہ پالیسی سازی کو سائنسی شواہد کی بنیاد پر مؤثر بنایا جا سکے۔ انہوں نے ماحولیاتی سفارت کاری کو فروغ دینے اور مختلف ممالک کے ساتھ اتحاد بنانے پر بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی امداد پر انحصار کرنے کے بجائے ہمیں مقامی حل پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے، تاکہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے میں زیادہ مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔ ان کے مطابق ماحولیاتی احتساب کو یقینی بنانے اور خصوصی ماحولیاتی عدالتوں کا قیام وقت کی ضرورت ہے تاکہ ماحولیاتی انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔

Read Comments