بچوں کے جھوٹ بولنے کی عادت اکثر والدین کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے، اور انہیں اس بات کا شکوہ ہوتا ہے کہ ان کے بچے جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔ حالانکہ کئی بار والدین خود ہی بچوں کے جھوٹ بولنے کی عادت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اس کے باوجود، والدین اگر مناسب طریقے سے رہنمائی فراہم کریں تو کچھ چھوٹی چھوٹی کوششوں کے ذریعے والدین اپنے بچوں کو اس عادت سے نجات دلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
بچوں کے ماہرہن کے مطابق، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بچوں میں جھوٹ بولنا کوئی پیدائشی عادت نہیں ہوتی، ان کو یہ عادت اس دنیا میں ملتی ہے۔ یہ ماحول اور والدین کی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بچے خاص طور پر بعض حالات میں جھوٹ بولتے ہیں، جیسے:
چھوٹے بچے جب یہ سوچتے ہیں کہ انھوں نے کچھ غلط کیا ہے اور اس کی سزا مل سکتی ہے، تو وہ خود کو بچانے کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں۔
چھوٹے بچے عموماً اپنے تخیل اور حقیقت میں فرق نہیں کر پاتے، اور جو کچھ وہ تصور کرتے ہیں، وہ ان کے لیے سچ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ حقیقت کے برعکس باتیں کہہ سکتے ہیں۔
بعض اوقات بچے پنے والدین یا دوستوں کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر بھی جھوٹ بولتے ہیں خاص طور پرجب وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں کم اہمیت دی جا رہی ہے۔
کچھ بچے جھوٹ بولنے کو مذاق یا کھیل کے طور پر لیتے ہیں۔ وہ دوسروں کو حیران کرنے یا ہنسانے کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں، اور وقت کے ساتھ یہ ان کی عادت بن جاتی ہے۔
امریکی محکمہ صحت کی ایک رپورٹ میں بچوں کے جھوٹ بولنے کے طریقے اور وجوہات کو ان کی عمر کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچپن میں بچوں کے جھوٹ بولنے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں اور وہ اپنی عمر کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔
2 سے 4 سال کی عمر کے بچوں میں یہ جھوٹ زیادہ تر غیر ارادی اور تخیلاتی ہوتا ہے۔
4 سے 5 سال کے بچے جان بوجھ کر جھوٹ بولنے لگتے ہیں، خاص طور پر جب وہ سزا سے بچنا چاہتے ہیں یا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
6 سے 12 سال کے بچے زیادہ ہوشیار ہو جاتے ہیں اور اتنی مہارت سے جھوٹ بولنے لگتے ہیں، جنہیں پکڑنا تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے۔ جب بچے 12 سال کے قریب پہنچتے ہیں، تو وہ راز رکھنے کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں۔
بچے میں والدین سے جھوٹ کی عادت کیسے منتقل ہوتی ہے؟
ماہرین کے مطابق، اگر بچوں کو ہر چھوٹی غلطی پر سزا دی جائے تو یہ انہیں جھوٹ بولنے کی طرف مائل کر سکتا ہے۔ جب بچے یہ محسوس کرتے ہیں کہ سزا سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنا ایک آسان راستہ ہے، تو وہ اکثر ایسا کر لیتے ہیں۔ یہ عادت وقت کے ساتھ یہ ایک مستقل رویہ بن سکتی ہے۔ خاص طور پر جب بچے ڈرتے ہیں کہ سچ بولنے پر انہیں سخت سزا ملے گی، تو وہ جھوٹ بول کر اپنی حفاظت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
والدین اور بچوں کے درمیان کمیونیکیشن کی کمی بھی بچوں میں جھوٹ بولنے کی عادت کے پیچھے ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے۔ اکثر بچے یہ سوچتے ہیں کہ ان کے والدین ان کی باتوں کو نہیں سمجھیں گے یا ان کی ضروریات کو نظر انداز کریں گے، اس لیے وہ جھوٹ بولنے کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ وجہ نہ صرف بچے کو والدین سے جذباتی طور پر دور کردیتی ہے بلکہ ان کے اندرجھوٹ بولنے کی عادت بھی جڑ پکڑنے لگتی ہے۔
بچے اپنے والدین کو سب سے بڑا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ اگر والدین خود جھوٹ بولتے ہیں یا کچھ چھپاتے ہیں، تو بچے بھی اسی رویے کو اپنا لیتے ہیں۔ اس لیے، بچوں کی بہترین تربیت کے لیے والدین کو اپنی مثال سے سچائی کا پیغام دینا ضروری ہے۔1بچوں کو مناسب
ماہرین والدین کو بچوں کی درست پرورش کے لیے مختلف تجاویز دیتے ہیں۔
بچوں کو سمجھانا ضروری ہے کہ جھوٹ بولنے کے بجائے سچ بولنا کیوں بہتر ہے۔ انہیں واضح انداز میں بتائیں کہ سچ بولنے سے ان کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور صرف جھوٹ ہی لوگوں کو ان سے دور کر سکتا ہے۔ جب بچہ جھوٹ بولتا ہے تو اسے پیار سے سمجھانا چاہیے نہ کہ ڈانٹ ڈپٹ سے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ جھوٹ بولنے میں کیا حرج ہے۔
جب بچہ سچ کہے تو اس کی تعریف کریں۔ اس سے بچہ سمجھ جائے گا کہ سچ بولنے کے ہمیشہ اچھے نتائج ہوتے ہیں۔ ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ والدین سب سے پہلے بچوں کو بتاتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ تو پہلے انہیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
بچوں کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہ گھر میں محفوظ ہیں اور ان کی غلطیوں کے باوجود ان سے پیار کیا جائے گا۔ جب بچے خوفزدہ نہیں ہوں گے تو وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے میں آسانی محسوس کریں گے اور جھوٹ نہیں بولیں گے۔
جب بچہ جھوٹ بولتا ہے تو یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ایسا کیوں ہوا۔ یہ ممکن ہے کہ وہ خوف یا شرمندگی سے جھوٹ بول رہا ہو۔ صرف اس کی غلطی پر توجہ دینے اور اسے سزا دینے کے بجائے صورتحال کو سمجھ کر اس کی رہنمائی کریں۔
بچوں کی سمجھ ان کی عمر کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ ہمیشہ سچ بولیں لیکن انہیں آہستہ آہستہ سکھایا جا سکتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں، سچ بولنے کی اہمیت اور اس کے نتائج انہیں بہتر انداز میں سمجھائے جا سکتے ہیں۔