ماسکو اور مغرب کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ امریک اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے صحافی ایوان گرشکووچ اور سابق امریکی میرین پال وہیلن سمیت مجموعی طور پر 24 قیدیوں کو رہائی ملی ہے۔
قیدیوں کا تبادلہ جمعرات کو ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ کے ایئر پورٹ پر ہوا تھا۔ بیلارس، جرمنی اور ترکی نے 7 ممالک کے قیدیوں کو روس سے رہائی دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس نے روس سے رہائی پانے والے امریکیوں کا خیرمقدم کیا۔ اس مقع پر گیرشکووچ، سابق امریکی میرین پال وہیلن اور رہائی پانے والے دیگر افراد کے اہلِ خانہ بھی موجود تھے۔
طیارے سے اترنے والوں کو صدر بائیڈن اور کملا ہیرس نے فرداً فرداً گلے لگاکر مبارک باد دی۔ روس سے تعلق رکھنے والے 16 افراد میں 5 جرمن اور 7 روسی سیاسی قیدی شامل ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے 10 قیدیوں کا خیرمقدم کیا۔
مغربی دنیا اور سابق سوویت یونین کے درمیان 1989 میں ختم ہونے والی سرد جنگ کے بعد سے اب تک یہ روس اور مغربی دنیا کے درمیان قیدیوں کا سب سے بڑا تبادلہ ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ روس نے 16 قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ ان قیدیوں کے بدلے میں امریکہ، ناروے، جرمنی، پولینڈ اور سلووینیا کی جیلوں سے 8 روسی قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ رہائی پانے والے روسی قیدیوں میں خفیہ سرگرمیوں میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔
ولادیمیر کارا مرزا برطانوی اور روسی شہریت کے حامل ہیں جبکہ ان کے پاس امریکہ کا ورک ویزا بھی ہے۔ انہیں جرمنی بھیجا رہا ہے۔ 8 روسی شہریوں کو امریکا، جرمنی، سلووینیا، ناروے اور پولینڈ سے رہائی کے بعد واپس ماسکو لے جایا گیا۔ امریکی صحافی ایوان گیرشکووچ کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ وہ ایک سال سے بھی زائد مدت سے ایوان کی آمد کے منتظر تھے۔۔۔۔۔۔۔