سپریم کورٹ کی ضلعی عدلیہ سے غیر قانونی تصادم کرنے والے ایگزیکٹو افسران کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت
سپریم کورٹ نے عدلیہ کی خودمختاری مضبوط بنانے اور ایگزیکٹو افسران کے عدلیہ کے ساتھ رویے سے متعلق اہم فیصلہ جاری کردیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اسسٹنٹ کمشنر قلات کی اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ہائی کورٹس ذاتی سکیورٹی ایجنسی تشکیل کا معاملہ صوبائی حکومتوں کے سامنے اٹھائیں، ججز سکیورٹی و تحفظ عدلیہ کا اندرونی معاملہ نہیں ایگزیکٹو کے کنٹرول میں ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ضلعی عدلیہ عام لوگوں کو پولیس اختیارات کے غلط استعمال سے تحفظ دیتی ہے، پولیس کے فیصلوں سے نالاں ہو کر ضلعی عدلیہ کی سکیورٹی واپس لینے کی مثالیں موجود ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ضلعی عدلیہ کے پاس ذاتی سکیورٹی ہونی چاہئے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ دنیا کے کچھ ممالک میں عدالتوں کی اپنی سکیورٹی فورس ہے، ضلعی عدلیہ انتظامیہ و پولیس سکیورٹی سمیت ہر معاملے میں مکمل خودمختار ہونی چاہئے، ہائی کورٹس متعلقہ صوبوں کے سامنے معاملہ اٹھائیں، ذاتی سکیورٹی ایجنسی تشکیل دیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ضلعی عدلیہ کو عدالتی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، ضلعی عدلیہ مشکل ماحول میں انصاف فراہمی کیلئے فرنٹ لائن پر مقدمات سن رہی ہے ، 2021 کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں زیرِ التوا کیسز کے 82 فیصد ضلعی عدلیہ سنتی ہے، ضلعی عدلیہ نظام انصاف کا بنیادی جزو ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹس عدلیہ سے تصادم کرنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کریں، غیر مشروط معافی کا مطلب غلطی کو تسلیم کرنا ہے، غیر مشروط معافی کے مقدمات میں شواہد اور چارج کی ضرورت نہیں ہوتی، موجودہ کیس میں اسسٹنٹ کمشنر نے ضلعی عدلیہ کو نیچا دکھانے کی کوشش کی، ضلعی عدلیہ کا انتظامیہ حملے سے تحفظ ناگزیر ہے، آئین ہائی کورٹ کو اختیار دیتا ہے کہ ضلعی عدلیہ کی توہین پر سزا سنائے۔
خیال رہے کہ اسسٹنٹ کمشنر قلات پر سول جج کو چھ گھنٹے بغیر مقدمہ حراست میں رکھنے کا الزام تھا۔
پس منظر
سلطان احمد بلوچستان کے ضلع قلات میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر تعینات تھے۔ اس وقت محمد زاہد ضلعی عدلیہ میں قاضی (سول جج کے مساوی عدالتی دفتر) کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
16 فروری 2016 کو بغیر ایف آئی آر کے اندراج کے، سلطان احمد نے قاضی کی سرکاری رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، خاتون سے ناجائز تعلقات رکھنے کے الزام میں ان پر تشدد کیا اور گرفتار کرلیا۔
مذکورہ خاتومن ایک پولیس کانسٹیبل تھیں جن کی تاریخ پیدائش کی تصحیح کے لیے دیوانی مقدمہ قاضی کی عدالت میں زیر سماعت تھا۔
چھاپے کے دوران قاضی کے گھر سے خاتون پولیس کانسٹیبل بھی برآمد ہوئیں۔
اس کے بعد سلطان احمد قاضی کو ننگے پاؤں گھسیٹتے ہوئے مقامی تھانے کی بجائے قلات میں لیویز لائن لے گئے اور انہیں چھ گھنٹے حراست میں رکھا۔