شائع 10 جنوری 2023 11:41pm

’ہمیں اپنے لوگوں سے سچ بولنا چاہئیے، ملک ڈیفالٹ ہوچکا ہے‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما حسان خاور کا کہنا ہے کہ گورنر راج کی کوئی توجیہ سمجھ نہیں آتی ، لیکن ان کے جو گورنر ہیں اور جو گورنمنٹ ہے ان سے کوئی بعید نہیں۔

آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ کے پہلے حصے میں میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ گفتگو میں حسان خاور نے کہا کہ یہ خوفزدہ ہیں کہ پنجاب اسمبلی ٹوٹ گئی تو ان پر قومی انتخابات کا پریشر بڑھ جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ”یہ عوام میں جانا نہیں چاہتے، کیونکہ یہ جانتے ہیں اگر یہ عوام میں گئے تو انہیں عوام نے جوتے مارنے ہیں۔“

عمران اور پرویزالہیٰ میں تلخ کلامی

پرویز الہیٰ کے ووٹ لینے سے انکار اور عمران خان سے ان کی تلخ کلامی کے سوال پر حسان خاور نے کہا کہ ”کوئی تلخ کلامی نہیں ہوئی، یہ ایک چینل نے رپورٹ کیا ہے، ان سے ذرا پوچھیں کہ ان کو کہاں سے یہ خبر فیڈ کی گئی ہے۔“

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ بات یہ ہے کہ یہ اسمبلی نہیں توڑنا چاہتے، یہ تین طریقے استعمال کر رہے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جس کا آپ نے زکر کیا کہ جعلی خبریں لگواؤ اور ظاہر کرو کہ پرویز الہیٰ اور عمران خان میں اختلافات ہیں، اختلافات ہوئے تو وہ واضح کردیں گے انہیں کس چیز کا ڈر ہے۔

’پرویز الہٰی کو عمران کا حکم ماننا پڑے گا‘

حسان خاور کی بات پر ردعمل دیتے ہوئے آج نیوز لاہور کے بیورو چیف سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں کے درمیان معاملات تناؤ کا شکار ہیں۔ لیکن پرویز الہٰی صاحب کا ایک ریکارڈ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کسی طرح پنجاب اسمبلی نہ ٹوٹے اور اس کا دورانیہ تھوڑا آگے چلا جائے۔

انہوں نے کہا کہ صورتِ حال یہ ہے اگر پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ لے لیتے ہیں تو انہیں عمران خان کا حکم ماننا پڑے گا اور اسمبلی کو تحلیل کرنا ہوگا۔ اس پر عدالت بھی کچھ نہیں کہہ سکتی۔

منیزے کے سوال پر کہ کیا پرویز الہیٰ اعتماد کا ووٹ لے کر اسمبلی تحلیل کردیں گے؟َ حسان خاور نے کہا کہ ”100 پرسنٹ (فیصد) کریں گے۔“

تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ کسی شخص نے کیا فیصلہ کرنا ہے وہ اس کی مرضی ہے، اس وقت میجورٹی میں تحریک انصاف ہے، پرویز الہیٰ نے اپنے سیاسی مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ چلنا ہے۔ تو ظاہر ہے انہوں نے پی ٹی آئی کی بات پر چلنا ہے۔ ”اگر پی ٹی آئی کی بات پر نہیں چلے تو اتحاد نہیں رہے گا۔“

مونس الہٰی کو ایف آئی اے کے نوٹس کی بات پر انہوں نے کہا کہ جو پاکستان کی سیاست کو سمجھتا ہے اسے معلوم ہے کہ یہاں چیزوں کی ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہے۔

آصف زرداری کے لاہور میں ڈیرے

آصف علی زرداری کے لاہور میں متوقع ڈیرے پر حسان خاور نے کہا کہ جس بندے کے پاس پنجاب اسمبلی میں چھ سات سیٹیں ہوں اور وہ پنجاب آئے، اور ساری نظریں اس کی جانب لگی ہوئی ہوں، تو اس کی کیا طاقت ہے؟ ”پیسے کی طاقت ہے نا“۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ آئین پڑھ لیں، آپ عدالت کا فیصلہ دیکھ لیں، آپ رولز آف دی گیم دیکھ لیں۔ رولز آف دی گیم میں ایسی کوئی گنجائش نہیں نکلتی کہ حمزہ وزیراعلیٰ بنے۔ لیکن اگر کسی نے پچ سے باہر کھیلنا ہے تو اس کیلئے نئے رولز بنیں گے اور اس کا جواب وہی دے سکتا ہے۔

ملک کی دگرگوں معاشی صورتِ حال اور اس کا حل

پروگرام کے دوسرے حصے میں ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے منیزے نے بتایا کہ پاکستان اس وقت شدید کیش بحران سے دوچار ہے، اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے پانچ بلین ڈالرز رہ گئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ امپورٹ بلز کی ادائیگی کیلئے ہمارے پاس تین ہفتوں کے پیسے رہ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ خطرے کی گھنٹی بجنے والے حالات ہیں کیونکہ پاکستان اس وقت بہت تیزی سے دیوالیہ کی طرف بڑھ رہا ہے، اور اس کا براہ راست اثر ہمارے روپے پر پڑھ رہا ہے جس کی قدر تیزی سے کم ہورہی ہے۔

منیزے نے کہا کہ آئی ایم ایف ک پروگرام میں ہمیں جانا تھا جو نہیں جاسکے، حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے بات کر رہی ہے، کوشش کی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف نے جو شرائط عائد کی ہیں کہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جائیں، اس پر آئی ایم ایف کوئی لچک دکھائے۔ مگر ابھی تک آئی ایم ایف کا اگلا ٹرانشے (قسط) کو آنا تھا وہ نہیں آیا۔ لیکن آج ایک اچھی خبر سعودی عرب سے آئی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری ایک ارب ڈالر سے بڑھا کر دس ارب ڈالر کی جائے گی۔

’ملک ڈیفالٹ ہوچکا‘

سعودی عرب کے اعلان اور پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے پر بات کرتے ہوئے امریکہ کی پرنسٹن کی یونیورسٹی میں معیشت، پبلک پالیسی اور فنانس کے پروفیسر عاطف میاں کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے آس پاس آگ لگی ہے اور صورتِ حال بہت خراب ہے، اور اگر اس کا حل ہمیں نکالنا ہے تو ذرا پیچھے ہٹ کر دیکھیں کہ اس صورتِ حال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چاہے آئی ایم ایف سے ملیں یا سعودی عرب سے، پیسے شارٹ ٹرم میں مل رہے ہیں اور ان پیسوں کے صرف آجانے سے مسائل کا حل نہیں ملے گا، ان پیسوں سے آپ کو تھوڑی مہلت تو مل سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس مہلت کا آپ فائدہ کس طرح اٹھاتے ہیں، اور کیا آپ اس مالیاتی مہلت میں کچھ ایسے فیصلے کرپاتے ہیں جس سے ملک طویل مدتی بنیادوں پر ایک صحیح سمت میں چلے۔

ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے امکان کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ”ہمیں اپنے لوگوں سے سچ بولنا چاہئیے، ملک ڈیفالٹ ہوچکا ہے۔“

ڈیفالٹ کا مطلب کیا ہے؟

میاں عاطف کا کہنا تھا ڈیفالٹ کا مطلب ہے جو وعدے آپ نے کئے ہوئے ہیں وہ آپ پورے نہیں کرسکتے، مثال کے طور پر ڈالر پیمنٹ کے وعدے۔

باہر ممالک میں زیر تعلیم بچوں کی فیسوں کا بحران

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں اپنے بچے کو باہر ملک تعلیم کیلئے بھیجتا ہوں، مجھے اس کی فیس ادا کرنی ہے اور بینک انکار کردیتا ہے، تو میرا حق ہے کہ جو پیسے میں نے حلال طریقے سے کمائے ہیں ان سے بچے کی فیس ادا کرسکوں، آج حالات یہ ہیں کہ میں اپنی فیس ادا نہیں کرسکتا۔

انہوں نے طنزیہ کہا کہ یہ الگ بات ہے ہم نے فیصلہ کیا کہ بانڈ ہولڈرز کی ادائیگیاں تو کردیں گے، لیکن باقی امپورٹرز کی ادائیگیاں روک دیں گے، وہ بچے جو باہر پڑھنا چاہتے ہیں ان کی پیمنٹ روک دیں گے۔

میاں عاطف نے کہا، ”یہ تو ہم ڈیفینیشنز (تعریف) میں پڑھ گئے ہیں، لیکن اصل حالات یہ ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہوچکا ہے۔“

وہ مزید کہتے ہیں کہ اب اس سے آگے چلیں، ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کی عادت اپنا لی ہے۔

ڈالر کی مصنوعی قدر

31.8 بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ، 27 بلین ڈالرز کی ریمیٹنس اور امپورٹس کے بل 80 بلین ڈالرز یعنی اندازاً 20 بلین ڈالرز کے بڑے فرق پر انہوں نے کہا کہ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں گیپ کوئی نئی بات نہیں بہت عرصے سے چلی آرہی ہے۔ لیکن نئی حکومت نے اپنا ہی وزیر خزانہ ہٹا کر ایک بے یقینی پیدا کی، اس کے بعد پالیسی یہ اپنائی کہ مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت کو روکنے کی کوشش کی اور اس کیلئے انہوں نے امپورٹس کو مصنوعی طور پر انکار کرنا شروع کردیا۔ یعنی اگر ایک ٹیکسٹائل کمپنی ہے اور اسے کیمیلز امپورٹ کرنے ہیں، اور کیمیکل امپورٹ نہیں ہوں گے تو اس کمپنی کی ایکسپورٹ بھی نہیں ہوسکیں گی۔

پاکستان میں مرغی بحران کی وجہ

ان کا کہنا تھا کہ مرغیوں کا بحران بھی اسی وجہ سے ہے کہ ان فیڈ امپورٹ ہوتی ہے، اس فیڈ سے مرغیوں کا وزن بڑھتا ہے، لیکن آپ نے امپورٹ پر پابندیاں لگا کر ڈالر کی قیمت روک کر رکھنی ہے اور فیڈ امپورٹ نہیں کرنی تو مرغیوں کا وزن اس قدر نہیں ہوسکے گا کہ وہ مارکیٹ میں بک سکیں۔ اس طرح پولٹری فارمز بند ہونے شروع ہوجائیں گے اور مرغیوں کی قیمت مزید بڑھنا شروع ہوجائے گی۔

ان تمام مسائل کے حل پر بات کرتے ہوئے عاطف میاں نے کہا کہ آپ کی سیاسی پارٹیاں اگر سب کچھ سمجھتے بوجھتے ایسے لوگوں کو معیشت کا ذمہ دیں اور وہ ایسی اصلاحات لاتے ہیں تو ظاہری بات ہے صورتِ حال مزید بگڑے گی، وہ بہتری کی طرف نہیں جائے گی۔

حل کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ مشورہ میرا یہ ہے جو حقائق ہیں انہیں تسلیم کیا جانا چاہئیے، آپ پیترول سستا نہیں بیچ سکتے اگر آپ کے پاس پیٹرول کی ادائیگی کیلئے ایکسپورٹس نہ ہوں، اسی قسم کی کچھ تلخ حقیقتیں آپ کو تسلیم کرنی پڑیں گی۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو آئی ایم ایف اور دوسرے اداروں سے مدد لینی ہے تو آپ کو ان کی باتیں ماننی پڑیں گی، آپ کو برا لگے گا لیکن اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔ ایک چوائس ہوتی ہے کہ اگر آئی ایم ایف آپ کو قیمتیں بڑھانے کا کہے تو آپ کہہ سکتے ہیں سیاسی صورتِ حال کے باعث ہم قیمتیں نہیں بڑھا سکتے، لیکن کسی دوسرے طریقے سے آپ کو آمدن دے سکتے ہیں۔

میاں عاطف نے کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ حکومتیں عوام سے سچی بات نہیں کرتیں، وہ اپنا پلان تو لے کر جاتی نہیں آئی ایم ایف کے پاس کہ جی ٹھیک ہے آپ ہم سے دو تین کام کروا رہے ہیں ، ہم ان میں سے دو تو کرسکتے ہیں لیکن تیسرا ہمارے لئے زیادہ مشکل ہے، تو ہم آپ کو اپنا ایک پلان پیش کرتے ہیں، جس سے ہم وہی آمدنی کسی اور طریقے سے پیدا کرسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے آپ کے پاس ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو اس طرح کے دیگر آپشنز پر غور کرسکیں، دوسرا یہ کہ جو وعدہ کررہے ہیں اسے پورا کرکے دکھائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں رئیل اسٹیٹ اور شوگر انڈسٹر جیسی غیر پیداواری صنعتوں کو دی گئی سبسڈیز سے ہٹنا ہوگا، اس طرح کے ہمت والے سیاسی فیصلے نہیں لیں گے تو معیشت اسی طرح چلتی رہے گی جس طرح چل رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے حکمرانوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگلے بیس سے پچیس سال میں ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں افغانستان جیسے ممالک کھڑے ہیں۔

چینی قرضوں پر تنقید کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت قرضوں کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ چین کے قرضے بھی ہیں اور دیگر قرضے بھی۔ چین سے جب معاہدے ہو رہے تھے تو میں نے اس وقت بھی عوامی سطح پر یہ آواز اٹھانے کی کوشش کی تھی کہ کیا کوئی دیکھ رہا ہے اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا پاکستان کی معیشت میں اتنی سکت ہوگی کہ جو بلینز آف ڈالرز آپ چین سے لے رہے وہ آپ واپس کرسکیں؟

Read Comments