ایرانی ریال زمین بوس: ملک میں احتجاج، مرکزی بینک کے سربراہ مستعفی

تہران کے وسطی علاقے سعدی اسٹریٹ اور مرکزی گرانڈ بازار کے قریب شوش علاقے میں تاجروں اور دکان داروں نے احتجاج کیا۔
شائع 30 دسمبر 2025 10:29am
علامتی تصویر: اے آئی
علامتی تصویر: اے آئی

ایران میں پیر کے روز ملک کی کرنسی ’ریال‘ کی تاریخی سطح پر گراوٹ نے عوام میں مہنگائی اور اقتصادی بدحالی کے خلاف غصے کو بھڑکا دیا اور ملک گیر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ان مظاہروں نے ملک کے مرکزی بینک کے سربراہ محمد رضا فرزین کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق فرزین نے مظاہرین کے تہران اور دیگر بڑے شہروں میں سڑکوں پر نکلنے کے بعد عہدہ چھوڑا۔

تہران کے وسطی علاقے سعدی اسٹریٹ اور مرکزی گرانڈ بازار کے قریب شوش علاقے میں تاجروں اور دکان داروں نے احتجاج کیا۔

تاریخی طور پر یہ علاقے سیاسی تبدیلی کے اہم مراکز سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ 1979 کی اسلامی انقلاب کے دوران بھی یہی بازار تبدیلی کی علامت رہے تھے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے بتایا کہ مظاہرے اصفہان، شیراز اور مشہد میں بھی دیکھے گئے۔ بعض علاقوں میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

یہ مظاہرے 2022 کے احتجاج کے بعد سب سے بڑے ہیں، جب 22 سالہ ماہسا جینا امینی کو حجاب کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا اور ان کی حراست میں موت ہو گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد پورے ملک میں کئی ماہ تک احتجاج جاری رہا۔

مشاہدین نے بتایا کہ کئی دکان داروں نے احتجاجاً اپنی دکانیں بند کر دی اور دوسروں سے بھی ایسا کرنے کی اپیل کی۔

نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اِلنا‘ کے مطابق اس دوران کاروباری سرگرمیوں میں شدید کمی دیکھی گئی، حالانکہ کچھ دکانیں کھلی رہیں۔ اس سے ایک دن قبل احتجاج محدود تھے اور صرف تہران کے دو موبائل مارکیٹ میں مظاہرین نے حکومتی مخالف نعرے لگائے تھے۔

ایران کی اس اقتصادی بدحالی کی بنیادی وجہ ریال کی گراوٹ ہے، جو اتوار کو 1.42 ملین فی ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور پیر کو معمولی بحالی کے بعد تقریباً 1.38 ملین فی ڈالر پر آئی۔ فرزین کے عہدہ سنبھالنے کے وقت 2022 میں کرنسی تقریباً 4 لاکھ 30 ہزار فی ڈالر پر تھی۔

ریال کی تیز گراوٹ نے مہنگائی کو مزید بڑھا دیا ہے، جس سے خوراک اور روزمرہ ضروریات کی قیمتیں بلند ہوئی ہیں اور گھریلو بجٹ پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

ایران کے سرکاری شماریاتی مرکز کے مطابق دسمبر میں مہنگائی 42.2 فیصد تھی، جو پچھلے سال کی اسی مدت سے زیادہ اور نومبر کی مہنگائی سے بلند تھی۔

خوراک کی قیمتوں میں سالانہ 72 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ صحت اور طبی اشیاء کی قیمتیں 50 فیصد بڑھیں، جو ناقدین کے مطابق ممکنہ ہائپر انفلیشن کی نشانی ہیں۔

ایران کی اقتصادی مشکلات پر بین الاقوامی پابندیاں بھی اثرانداز ہو رہی ہیں۔ 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد ریال تقریباً 32 ہزار فی ڈالر پر تجارت کر رہا تھا، لیکن 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے انخلا کے بعد پابندیاں دوبارہ سخت ہو گئیں۔

جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ اور اقوام متحدہ کی ستمبر میں جوہری پابندیوں کی دوبارہ بحالی نے بھی اقتصادی عدم استحکام میں اضافہ کیا، جس سے بین الاقوامی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال بڑھ گئی ہے۔

Mohammad Reza Farzin

Iranian Currency

Irani Riyal