انبیاء کا شہر، جہاں تین مذاہب ایک نقطے پر ملتے ہیں
ترکی کے جنوب مشرق میں واقع ”شانلی اُورفا“ وہ شہر ہے جہاں تاریخ محض ماضی کی کہانی نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کا حصہ بن کر سانس لیتی ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں عبادت گاہیں صرف مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لیے نہیں بلکہ ذہنی سکون اور سماجی میل جول کی جگہ بھی ہیں، اور جہاں ہزاروں برس پرانے پتھر انسان کے اولین روحانی سوالات کی گواہی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے شانلی اُورفا کو صدیوں سے ”انبیاء کا شہر“ کہا جاتا ہے۔ ایک ایسا شہر جہاں اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی روایات ایک ہی جغرافیے میں آ کر ملتی ہیں۔
یہ شہروہ خطہ جسے تہذیبِ انسانی کی جنم بھومی کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ اس شہر نے کئی نام اور کئی تہذیبیں دیکھی ہیں۔ کبھی یہ آرامی قبائل کا مسکن رہا، کبھی یونانی اور رومی دور میں ایڈیسا کہلایا، پھر اسلامی فتوحات کے بعد روہا اور عثمانی دور میں اُورفا بنا۔ 1984 میں ”شانلی“ کا لقب پایا۔ جدید ترکی میں شہر کے نام کے ساتھ ”شانلی“ کا اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ شہر اپنی تاریخ میں دکھائی گئی مزاحمت اور عوامی جدوجہد کو آج بھی یاد رکھتا ہے، یوں اس شہر کا نام ہی اس کے ماضی، شناخت اور وقار کا خلاصہ بن جاتا ہے۔
یہ شہر شانلہ اورفا جو ”انبیاء کا شہر“ کے لقب سے مشہورہے، تینوں ابراہیمی مذاہب میں محترم سمجھے جانے والے انبیاء سے منسوب ہے، جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
مقامی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی کے خلاف آواز بلند کی، جس پر وقت کے بادشاہ نے انہیں آگ میں ڈالنے کا حکم دیا، لیکن یہی آگ پانی میں بدل گئی اور لکڑیاں مچھلیوں کی صورت اختیار کر گئیں۔ آج بالیکلی گول کے شفاف پانیوں میں تیرتی مچھلیاں اسی روایت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ زائرین یہاں دعا کرتے ہیں، خاموشی سے بیٹھتے ہیں اور اس جگہ کو محض ایک تاریخی مقام نہیں بلکہ روحانی تجربہ مانتے ہیں۔

اسی احاطے میں واقع حضرت ابراہیم علیہ االسلام کی جائے پیدائش سمجھا جانے والا غار بھی عقیدت کا مرکز ہے۔ یہاں آنے والے افراد، خاص طور پر خواتین، دعا، امید اور شفا کی نیت سے ٹھہرتے ہیں۔ غار کی خاموش فضا، مدھم روشنی اور دعاؤں کی سرگوشیاں اس احساس کو مضبوط کرتی ہیں کہ یہ شہر محض دیکھا نہیں جاتا بلکہ محسوس کیا جاتا ہے۔

شانلی اُورفا کی اہمیت صرف مذہبی روایت تک محدود نہیں۔ شہر کے قریب واقع گوبیکلی تَپے نے دنیا بھر کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو حیران کر دیا ہے۔ یہ مقام گیارہ ہزار سال پرانا ہے، ایک ایسا دور جب انسان نے ابھی کھیتی باڑی اور مٹی کے برتن تک ایجاد نہیں کیے تھے، مگر اس کے باوجود یہاں عظیم مذہبی و رسوماتی ڈھانچے تعمیر کیے گئے۔

اس دریافت نے یہ سوچ جنم دی کہ شاید انسان نے سب سے پہلے عبادت گاہ بنائی، گھر اور کھیت بعد میں آئے۔ گوبیکلی تَپے نے شانلی اُورفا کو صرف مذہبی نہیں بلکہ فکری طور پر بھی عالمی نقشے پر نمایاں کر دیا ہے۔
شہر کا آثارِ قدیمہ کا عجائب گھر اس طویل انسانی سفر کی جھلک دکھاتا ہے۔ قدیم مجسمے، موزائیکس، مقدس متون اور روزمرہ اشیاء ایک ساتھ رکھ کر یہ بتایا جاتا ہے کہ یہاں تہذیبیں آئیں، پھلیں پھولیں اور گزر گئیں، مگر انسانی جستجو باقی رہی۔ رومی دور کے موزائیک فرش، چٹانوں میں تراشی گئی قبریں اور قدیم بستیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ شانلی اُورفا ہر دور میں انسانی سرگرمی کا مرکز رہا ہے۔
تاہم یہ شہر صرف تاریخ کا بوجھ اٹھائے خاموش نہیں بیٹھا۔ اس کے بازار آج بھی زندگی سے بھرپور ہیں۔ ڈھکے ہوئے بازار میں عرب، کرد اور ترک ثقافتوں کا امتزاج صاف دکھائی دیتا ہے۔ کہیں تسبیحیں ہیں، کہیں تانبے کے برتن، کہیں مصالحوں کی خوشبو اور کہیں چائے کے گلاسوں کی بھاپ۔ لوگ یہاں صرف خرید و فروخت نہیں کرتے بلکہ وقت بانٹتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور تعلق نبھاتے ہیں۔

کھانا شانلی اُورفا کی سماجی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ اُورفا سیخ کباب، کوفتے اور مقامی مٹھائیاں صرف ذائقہ نہیں بلکہ روایت ہیں۔ یہاں کھانا مل بیٹھنے کا رواج ہے، اور مہمان نوازی کو اخلاقی فرض سمجھا جاتا ہے۔ شام ڈھلتے ہی محفلیں سجتی ہیں، جن میں موسیقی، شاعری اور گفتگو نسلوں کے درمیان ایک پُل بن جاتی ہے۔
سِرا گجسی جس کا مطلب ہے ”محفلِ شب” یا “نائٹ آف گیدرنگ“ دراصل وہ شامیں ہیں جب شانلی اُورفا کے بزرگ اور نوجوان اکٹھے ہوتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، شاعری سناتے اور موسیقی سنتے ہیں۔ یہ محافل روایتوں کو نسل در نسل منتقل کرنے، آداب سکھانے اور کمیونٹی کے رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے منعقد کی جاتی ہیں، چاہے یہ خوشی کے مواقع جیسے شادی کی تقریبات ہوں یا کسی کے انتقال پر مشترکہ غم منانے کی راتیں ہوں۔

شانلی اُورفا کی سب سے نمایاں خصوصیت یہی ہے کہ یہ ایک عجائب گھر بن کر منجمد نہیں ہوا۔ یہاں مسجدیں عبادت کے ساتھ ساتھ آرام اور گفتگو کی جگہ ہیں، بازار تجارت کے ساتھ سماجی مرکز بھی، اور تاریخی مقامات روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ ایک ایسا شہر جہاں ماضی اور حال ایک دوسرے سے جدا نہیں بلکہ باہم مربوط دکھائی دیتے ہیں۔
















