براہ راست حملے سے گریز، امریکی فوج کو وینزویلا کی معاشی ناکہ بندی پر توجہ کی ہدایت
وائٹ ہاؤس نے امریکی فوج کو آئندہ کم از کم دو ماہ کے لیے وینزویلا کے تیل کی ترسیل پر سخت نگرانی اور عملدرآمد، جسے حکام نے “قرنطینہ” کا نام دیا ہے، پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اس مرحلے پر وینزویلا پر دباؤ بڑھانے کے لیے فوجی کارروائی کے بجائے معاشی اقدامات اور پابندیوں کے نفاذ کو ترجیح دے رہا ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ اگرچہ فوجی آپشنز موجود ہیں، مگر فی الحال مقصد یہ ہے کہ پابندیوں کے ذریعے معاشی دباؤ بڑھا کر وہ نتائج حاصل کیے جائیں جو وائٹ ہاؤس چاہتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی طور پر وینزویلا سے متعلق اپنے اہداف واضح نہیں کیے، تاہم رپورٹس کے مطابق وہ نجی طور پر صدر نکولس مادورو پر اقتدار چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ٹرمپ نے حال ہی میں کہا تھا کہ مادورو کے لیے اقتدار سے علیحدگی ایک دانشمندانہ قدم ہو سکتا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ اقدامات نے مادورو حکومت پر نمایاں دباؤ ڈالا ہے اور ان کا خیال ہے کہ اگر وینزویلا نے بڑی رعایتیں نہ دیں تو جنوری کے آخر تک اسے شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب وینزویلا کے اقوام متحدہ میں سفیر سیموئل مونکاڈا نے امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اصل خطرہ وینزویلا نہیں بلکہ امریکی حکومت ہے۔
اس دوران امریکا نے کیریبین میں وینزویلا کے تیل سے لدے دو ٹینکرز کو روک کر تحویل میں لیا ہے۔ امریکی کوسٹ گارڈ ایک تیسرے جہاز، بیلا ون، کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم حکام کے مطابق اس کے لیے اضافی نفری درکار ہے۔ یہ جہاز اہلکاروں کو بورڈنگ سے انکار کر رہا ہے، جس کے باعث خصوصی تربیت یافتہ ٹیموں کی ضرورت پیش آ رہی ہے جو ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاز پر اتر سکیں۔
ماہرین کے مطابق یہ صورتحال امریکی انتظامیہ کی خواہشات اور کوسٹ گارڈ کے محدود وسائل کے درمیان فرق کو بھی نمایاں کرتی ہے۔
اگرچہ امریکی بحریہ کے پاس خطے میں بڑی فوجی موجودگی ہے، جن میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز، متعدد جنگی جہاز اور ایف-35 طیارے شامل ہیں، لیکن قانونی طور پر جہازوں کی تلاشی اور ضبطی جیسے اقدامات کوسٹ گارڈ ہی انجام دے سکتی ہے، جس کے وسائل نسبتاً محدود ہیں۔
امریکا نے اس حکمت عملی کو بعض مواقع پر ”ناکہ بندی“ کہا ہے، تاہم حالیہ بیانات میں ”قرنطینہ“ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے، جو 1962 کے کیوبا میزائل بحران کے دوران استعمال ہونے والی زبان کی یاد دلاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نوعیت کی ناکہ بندی کو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی مسلح جارحیت سمجھا جاتا ہے۔
ادھر امریکی کوسٹ گارڈ کے اعلیٰ حکام پہلے ہی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ادارہ وسائل اور تیاری کے سنگین بحران سے دوچار ہے۔
اس کے باوجود امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وینزویلا سے منسلک ایسے تمام بحری جہازوں کی نگرانی اور روک تھام جاری رکھی جائے گی جو پابندیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ صورتحال امریکا اور وینزویلا کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافے کی نشاندہی کرتی ہے، جس کے خطے پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔














