ایک گھنٹے میں قتل کیس حل: اے ایس پی شہربانو سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں

اے ایس پی شہربانو کا ویڈیو کلپ تیزی سے وائرل ہورہا ہے اور سوشل میڈیا صارفین مختلف انداز میں تبصرے کررہے ہیں۔
اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2025 11:43pm

پنجاب کی اے ایس پی شہربانو نقوی بہادری اور پیشہ ورانہ خدمات کے حوالے سے جانی جاتی ہیں، تاہم حالیہ وائرل پوڈ کاسٹ کلپ کے بعد وہ سوشل میڈیا پر بحث اور تنقید کا مرکز بن گئی ہیں، جہاں صارفین کی جانب سے مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا (ایکس) پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کال موصول ہوتے ہی اے ایس پی میزبان کو کہتی ہیں کہ ”مجھے ایس ایچ او کی کال آ رہی ہے“۔ فون سنتے ہی انھوں نے کہا ”ہاں جی فرخ…. ہیں؟؟؟ کدھر…. ؟؟؟ بندہ پکڑ لیا ہے…. ؟؟؟ ویری گڈ….. رکو! میں آ رہی ہوں“۔

فون بند کرنے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور میزبان کو جواب دیا کہ “ایک مرڈر ہو گیا ہے، میں جلدی سے ہو کرآئی۔ آپ اسی طرح رہیں، میں واپس آتی ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ کھڑی ہوگئیں۔

یہ پوڈکاسٹ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا تھا، جہاں گفتگو کے دوران فون کال کے بعد ناظرین کو بتایا گیا کہ اے ایس پی ایک گھنٹے بعد واپس آئیں گی۔

بعد میں انٹرویو دوبارہ جاری کیا گیا اور میزبان نے ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری کو سراہتے ہوئے پوچھا کہ ” میم آپ اسی طرح مخلص ہیں اپنی جاب کے ساتھ… کیا میں جان سکتا ہوں، کیا ہوا تھا؟“

اے ایس پی شہربانو نے مسکراتے ہوئے مختصر سا جواب دیا ” مرڈرر…..“

یاد رہے کہ فروری 2024 میں لاہور کی مقامی مارکیٹ میں ایک خاتون پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا، جہاں ایک خاتون نے کُرتا پہنا تھا اوراس پرعربی الفاظ درج تھے۔ اے ایس پی گلبرگ شہربانو نقوی کے بروقت اقدام نے خاتون کو مجمع سے بچایا تھا اور اس واقعے کے بعد انھوں نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں بھی خصوصی شرکت کی تھی۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پر ان کے چند منٹ ک وائرل کلپ میں صارفین نے اپنا ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ کچھ صارفین نے کہا کہ اے ایس پی نے ایک گھنٹے میں قتل کا کیس حل کر دیا، جو غیر معمولی ہے، جب کہ کچھ نے اس پر سوال اٹھایا کہ کیا یہ سب حقیقت پسندانہ ہے یا کرائم سین کی ایکٹنگ تھی؟

وہیں کئی صارفین نے شہربانو نقوی کی تعریف بھی کی اور کہا کہ انہوں نے ذاتی مصروفیت کے بجائے موقع واردات پر جا کر ذمہ داری نبھائی، جو قابلِ تحسین ہے۔ تاہم صارفین کی جانب سے سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔

ایک صحافی عبدالوحید مراد کی ’ایکس‘ پر پوسٹ میں انھوں نے طنزیہ لکھا کہ سڈنی کی بونڈائی بیچ میں ہونے والے حملے کی تحقیقات کرنے والے نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے افسران بھی اے ایس پی شہربانو سے سبق حاصل کریں۔

اسی پوسٹ پر ایک صارف نے خوبصورت جواب لکھا کہ ایک ”قتل” پر مسکراہٹ بھرے جواب…. واقعی ایسا پنجاب پولیس ہی کرسکتی ہے۔ دوسرے نے لکھا کہ ”سوال بہت سادہ سا ہے کہ پولیس کی ایک افسر کی اتنی مارکیٹنگ کیوں کی جا رہی ہے“۔ تیسرے صارف نے کہا ”جب بندا پکڑا گیا تو جانے کی کیا ضروت تھی؟“

ایک صارف نے یہاں تک لکھا کہ ویڈیو کو غور سے دیکھیں کہ جاتے ہوئے حیرانی کے ساتھ میزبان کے سامنے مرڈر کا ذکر کر رہی ہیں اور پھر واپسی پر میزبان دوبارہ وہی سوال پوچھ رہا ہے کہ کیا ہوا تھا میڈم ؟؟؟ اور مسکراتے ہوئے شہربانوں نے کہا، ”مرڈر….“

گذشتہ برس لاہورمیں ہونےوالے واقعے کے بعد فیلڈ مارشل آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اے ایس پی شہر بانو نقوی سے ملاقات بھی کی تھی اور ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور بے لوث خدمات کو سراہا تھا۔ شہربانو نقوی نے 26 فروری کو لاہورکے اچھرہ بازار میں مشتعل ہجوم سے ایک خاتون کو محفوظ نکال کر اپنے غیر معمولی حوصلے اور پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیا۔

تازہ اور وائرل پوڈ کاسٹ پر کراؤن لا چیمبرزکے مینجنگ پارٹنر اور اقوامِ متحدہ کے قانونی مشیرابوذر سلمان نیازی نے ’ایکس‘ پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ہمارے بیوروکریٹس اب پوڈکاسٹرز بن گئے، پاکستان کی سول سروس کے زوال کی بہترین عکاس۔

اسی پوسٹ پر نیچے ایک صارف نے لکھا، ’’ہانیہ عامر کو اگلے سال کا بہترین اداکارہ کا ایوارڈ جیتنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔‘‘

وہیں دوسرے صارف نے لکھا کہ سر! آپ وکیل ہیں اورآپ بخوبی جانتے ہیں کہ پولیس والے تقریباً 24 گھنٹے ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ اگر آف ڈیوٹی کے دوران قتل ہو جائے، خاص طور پر کسی اہم شخصیت یا سیاسی وجہ سے، تو پولیس ایس پی اور ایس ایس پی موقع پر پہنچتے ہیں۔ پوڈکاسٹ کے لیے یونیفارم پہننا جائز ہے۔

وہیں، ایک اور صارف نے مثبت انداز میں لکھا کہ یہ ان کا انٹرویو ہے اورآپ کے لیے پوڈکاسٹ اوراگر وہ آف ڈیوٹی کام کرسکتی ہیں تو یہ وقت انٹرویو کے لیے کیوں نہیں استعمال کر سکتیں؟

خیال رہے کہ اے ایس پی شہربانو نقوی پاکستان کی وہ پہلی خاتون پولیس افسر ہیں جنہیں رواں برس ستمبر میں ایشیا سوسائٹی 21 نیکسٹ جنریشن فیلو شپ کے لیے منتخب کیا گیا یہ ایک بین الاقوامی اعزاز ہے جو ایشیا کے ابھرتے ہوئے رہنماؤں کو دیا جاتا ہے۔ ان کا انتخاب کمزور طبقات کے تحفظ اور قانون نافذ کرنے والے نظام میں مثبت تبدیلی لانے کی خدمات کے اعتراف میں کیا گیا۔

ابراہیم نامی ’ایکس‘ کے صارف نے اپنی پوسٹ میں مسکراہٹ والے ایموجی کے ساتھ لکھا کہ آپ ابھی شہربانو نقوی کی ایک ویڈیو دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں؟ ٹک ٹاک کھولیں، وہاں تو ایک الگ ہی دنیا چل رہی ہے۔

ایک صارف نے اپنی ایکس پوسٹ پر لکھا کہ دوستو، دھرندر کا سیکوئل آ گیا ہے! اسی پوسٹ پر ردِ عمل میں دوسرے صارف نے لکھا کہ یعنی کال اسی وقت آنی چاہیے تھی جب وہ انٹرویو میں بیٹھی تھیں… نہ اس سے پہلے، نہ بعد میں، ہم یہاں پاگل بیٹھے ہیں نا! ایک اور نے لکھا کہ انہیں کیا لگتا عوام جو دیکھ رہی ہے وہ آپ کو کیا سمجھتے ہوں گے؟

اسی پوسٹ پر ردِ عمل کے طور پر ایک اور صارف نے لکھا ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ صرف کیمرے کے لیے ہو رہا ہے، اصل میں پولیس محض دکھاوا کر رہی ہے۔ اصل حیرت کی بات تب ہے جب قتل واقع ہوا، ایس ایچ او وہاں تھا اور قاتل گرفتارکرلیا گیا تو پھرجانے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔

قارئین کے لیے یہ بھی یاد رہے کہ اچھرہ واقعے کے بعد مارچ 2024 میں سعودی عرب کے سفیرکی جانب سے اے ایس پی شہربانو نقوی کو بطور شاہی مہمان دورے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔ نواف بن سعید المالکی نے سعودی سفارتخانے میں خاتون پولیس افسر کے اعزاز میں تقریب منعقد کی اور انھیں خراج تحسین پیش کیا تھا۔

تاحال سوشل میڈیا پر وائرل ان کے پوڈکاسٹ پر اے ایس پی شہر بانو کی جانب سے کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا، لیکن سوشل میڈیا پر جاری بحث میں یہ سوال اہم ہو گیا کہ چاہے واقعہ حقیقی ہو یا نہ ہو، اسے اس انداز میں عوام کے سامنے پیش کرنا ضروری تھا یا نہیں۔

Sher bano Naqvi