بنگلہ دیش میں حالیہ احتجاج کی وجہ بننے والے عثمان ہادی کون ہیں؟

ڈھاکا پولیس کے مطابق عثمان ہادی کو12 دسمبرکو بیجوی نگرمیں انتخابی مہم کے دوران گولی ماری گئی۔
اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2025 06:06pm

شریف عثمان ہادی کی موت کے بعد بنگلہ دیش میں بالخصوص ڈھاکا میں پرتشدد احتجاج پھوٹ پڑا۔ مختلف علاقوں میں جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اورآتش زدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ مظاہرین نے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ صورتحال کے پیش نظر سیکیورٹی سخت کر دی گئی اور حکومت نے شہریوں سے تحمل کی اپیل کی ہے۔

عثمان ہادی پر حملہ ایسے وقت میں ہوا جب عام انتخابات میں صرف چند ماہ باقی تھے اور ایک دن پہلے ہی الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ ملک کے 13ویں پارلیمانی انتخابات 12 فروری 2026 کو منعقد ہوں گے۔

32 سالہ ہادی جولائی 2024 میں بنگلہ دیش کی عوامی بغاوت کے دوران ایک نمایاں کردار کے طور پر سامنے آئے تھے، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

عثمان ہادی کو بھارت کا سخت ناقد اور طلبہ تحریک کا فرنٹ لائن فائٹر سمجھا جاتا تھا۔ وہ طلبہ رہنماؤں کی جانب سے قائم کیے گئے سیاسی پلیٹ فارم انقلاب منچہ کے ترجمان بھی تھے۔

مقامی میڈیا کے مطابق عثمان ہادی کا تعلق ضلع جھالوکٹھی کے نالچِٹی اپازِلا سے تھا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ان کی تنظیم انقلاب منچہ ایک بااثر سیاسی قوت بن چکی تھی، جو عوامی لیگ کو تحلیل کرنے کی مہم میں پیش پیش رہی۔

انقلاب منچہ نے عوامی لیگ کے سرگرم کارکنوں کو گرفتار کرنے اورطلبہ تحریک میں شامل کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کی مہم چلائی تھی۔

دسمبر 2024 میں عثمان ہادی نے الزام عائد کیا تھا کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے خلاف گزشتہ برس طلبہ تحریک میں شامل کارکنوں کے قتل میں عوامی لیگ ملوث ہے۔

بنگلہ دیش کے مقامی اخبار ڈھاکا ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ہادی نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں نامعلوم نمبروں سے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔

ڈھاکا پولیس کے ترجمان کے مطابق عثمان ہادی کو 12 دسمبر کو دو بج کر پچیس منٹ پر بیجوی نگر کے باکس کلورٹ روڈ پر گولی ماری گئی تھی۔ ابتدائی معلومات کے مطابق موٹر سائیکل پر سوار تین حملہ آوروں نے فائرنگ کی اور موقع سے فرار ہو گئے۔

عثمان ہادی کو فوری طورپرڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا تاہم انہیں مزید علاج کے لیے 13 دسمبر کو سنگاپور منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دورانِ علاج انتقال کرگئے۔

پولیس کے مطابق ہادی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ڈھاکا کے مرکزی علاقے بیجوی نگر میں اپنی آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی مہم کا آغاز کر رہے تھے۔

ہادی کی موت کا اعلان ہوتے ہی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کہا کہ 19 دسمبر کو ملک بھر میں تمام عبادت گاہوں میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جائے گا۔

قوم سے خطاب میں پروفیسریونس نے کہا کہ مجرموں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ انہوں نے 20 دسمبر کو یومِ سوگ کا اعلان کیا اور ہدایت دی کہ قومی پرچم سرکاری، نیم سرکاری اور خودمختار اداروں، تعلیمی اداروں، سرکاری و نجی عمارتوں اور بیرونِ ملک بنگلہ دیشی مشنز پر سرنگوں رکھا جائے۔

Bangladesh

BANGLADESH CRISIS

Muhammad Yunus

Sharif Usman Hadi

Bangladesh Politics

Inquilab Mancha

Dhaka Unrest

Bangladesh Protests

Shaikh Haseena