جعلی ڈگری کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق جہانگیری نااہل قرار

طارق محمود جہانگیری جج کا عہدہ رکھنے کے اہل نہیں تھے، عدالت
اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2025 04:36pm

اسلام آبادہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف جعلی ڈگری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اُنہیں بطور جج نااہل قرار دے دیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق طارق جہانگیری بطور جج تعیناتی کے وقت ایل ایل بی کی درست ڈگری نہیں رکھتے تھے، ان کی بطورجج تعیناتی غیر قانونی تھی۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ طارق محمود جہانگیری جج کا عہدہ رکھنے کے اہل نہیں تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وزارت قانون کو ہدایت دی جاتی ہے کہ جسٹس طارق جہانگیری کو بطور جج ڈی نوٹیفائی کیا جائے۔

جمعرات کو چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار نے ڈگری سے متعلق مکمل اوریجنل ریکارڈ پیش کیا جبکہ جسٹس طارق جہانگیری عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔

رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے عدالت کو بتایا کہ طارق محمود جہانگیری کو امتحان کے دوران نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور ایگزامنر کو دھمکیاں دینے کے باعث ان پر تین سال کی پابندی عائد کی گئی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم نے ایل ایل بی کے امتحانات جعلی انرولمنٹ فارم کے ذریعے دیے اور مختلف مراحل پر اپنا نام اور ولدیت تبدیل کی تھی۔

رجسٹرار کے مطابق ایل ایل بی پارٹ ون میں طارق جہانگیری ولد محمد اکرم جبکہ پارٹ ٹو میں طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کے نام استعمال کیے گئے تھے، جبکہ انرولمنٹ نمبر بھی جعلی تھا۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اسلامیہ کالج کے پرنسپل کے مطابق ان کے ریکارڈ میں طارق جہانگیری نام کا کوئی طالب علم کبھی زیرِ تعلیم نہیں رہا۔

رجسٹرار کے مطابق اگرچہ طارق محمود سن 1992 میں دوبارہ امتحان دینے کے اہل تھے، لیکن ریکارڈ میں وہ 1990 میں تمام پرچوں میں کامیاب ظاہر کیے گئے، جس نے شکوک و شبہات کو مزید بڑھایا۔

وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ اس معاملے پر سندھ ہائیکورٹ میں کارروائی معطل ہے اور آرٹیکل دس اے کے تحت شفاف ٹرائل ان کا بنیادی حق ہے، اس لیے انہیں مکمل دلائل کا موقع دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت مناسب موقع فراہم کرے گی۔

دوسری جانب درخواست گزار میاں داود نے عدالت میں بیان دیا کہ جسٹس طارق جہانگیری نے عدالت میں جھوٹی قسم اٹھائی۔

انہوں نے قرآن پر حلف دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ جسٹس جہانگیری کی ڈگری بوگس ہے اور یہاں تک کہ انرولمنٹ فارم بھی جعلی تھے۔

پس منظر

یاد رہے کہ جولائی 2024 میں سوشل میڈیا پر ایک خط گردش کرنے لگا تھا جو مبینہ طور پر جامعہ کراچی کے کنٹرولر امتحانات کی طرف سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔

یہ خط مبینہ طور پر جامعہ کراچی کی جانب سے سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے تحت انفارمیشن کی درخواست کا جواب تھا جس میں کہا گیا تھا کہ امیدوار طارق محمود نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔

تاہم، ایک طالب علم امتیاز احمد نے 1987 میں اسی انرولمنٹ نمبر کے تحت داخلہ لیا، جب کہ ایل ایل بی پارٹ ون کا ٹرانسکرپٹ جسٹس طارق جہانگیری کے نام سے جاری کیا گیا۔

مزید برآں، طارق محمود نے ایل ایل بی پارٹ ون کے لیے انرولمنٹ نمبر 7124 کے تحت داخلہ لیا تھا، خط میں ڈگری کو جعلی قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن اسے غلط قرار دیا گیا، جس میں وضاحت کی گئی کہ یونیورسٹی پورے ڈگری پروگرام کے لیے ایک انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے جس سے طالب علم کے لیے ایک پروگرام کے لیے دو انرولمنٹ نمبر رکھنا ناممکن ہے۔

اس کے بعد وکیل میاں داؤد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی ڈگری کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں اور تحقیقات کی جائیں۔ درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات لگائے اور چیف جسٹس عامر فاروق نے ان کی سماعت کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں یہ معاملہ موجودہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے سامنے آیا۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی وکلا نے رٹ دائر کی اور اس پر اسٹے آرڈر جاری ہوا۔ اس دوران سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی فریق بننے کی درخواست دی۔

کراچی یونیورسٹی نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ اگست 2024 میں سنڈیکیٹ کے اجلاس میں طارق محمود کے انرولمنٹ نمبر 7124/87 اور سیٹ نمبر 22857 کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ طارق محمود پر تین سال کے لیے کسی بھی کالج میں داخلے اور یونیورسٹی کے امتحان میں بیٹھنے پر پابندی عائد کی گئی۔

طارق جہانگیری کون ہیں؟

جسٹس طارق محمود جہانگیری پاکستان تحریک انصاف کے دور میں 28 دسمبر 2020 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے تھے۔ ان کی پروفائل کے مطابق انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے اسلامیہ لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں مختلف عدالتی عہدوں پر فائز رہے اور فوجداری معاملات میں مہارت رکھتے ہیں۔

ان کی عدالتی خدمات میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف مقدمات، بلینکٹ پروٹیکشن کیسز شامل ہیں۔ جبکہ انہوں نے فوج کے خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق خطوط بھی لکھے ہیں۔

جسٹس جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چھ ججز میں شامل تھے جنہوں نے گزشہ برس مارچ میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک مشترکہ خط لکھ کر عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں بالخصوص آئی ایس آئی کی مداخلت کے سنگین الزامات عائد کیے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے خلاف لکھے جانے والے خط کے بعد جامعہ کراچی میں ایک شہری کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی جس میں آئین کے آرٹیکل 19 اور سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے تحت جسٹس طارق محمود جہانگیری کا تعلیمی ریکارڈ حاصل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

Islamabad High Court

Karachi university

justice tariq mehmood jahangiri

Fake Degree Case

Fake degree controversy