کراچی جرائم کی لپیٹ میں، ڈکیتی، قتل اور مبینہ پولیس اغوا کے سنگین واقعات
کراچی میں جرائم کی لہر ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں سے ڈکیتی، اسٹریٹ کرائم کے دوران قتل، پولیس پر مبینہ اغوا اور منشیات سے متعلق سنگین الزامات کے واقعات سامنے آئے ہیں، جس پر پولیس اور متعلقہ اداروں نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں جرائم کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں گھریلو ڈکیتی، اسٹریٹ کرائم کے دوران نوجوان کا قتل، پولیس پر اغوا اور تاوان طلب کرنے کا الزام اور منشیات کے معاملے پر انکوائری شامل ہے۔
ملیر الفلاح تھانے کی حدود میں واقع ایک نجی سوسائٹی میں سابقہ گھریلو ملازمہ نے اپنی سابقہ مالکن کے گھر ڈکیتی کی۔ پولیس کے مطابق واردات کے دوران ملزمان نے خاتون کو چھریوں کے وار کر کے زخمی کیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے 24 گھنٹوں کے اندر کارروائی کرتے ہوئے گھریلو ملازمہ اور اس کی بیٹی کو گرفتار کر لیا۔ ملزمان کے قبضے سے نقد رقم اور سونے کے زیورات بھی برآمد کر لیے گئے ہیں۔
کراچی اور صوبے میں جرائم کی وارداتیں کیوں ہوتی ہیں، آئی جی سندھ نے وجوہات بتا دیں
تفتیش کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی ہے، جس میں ماں بیٹی کو ایک تیسرے شخص کے ہمراہ واردات کے لیے آتے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ تیسرے ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب اورنگی ٹاؤن کے علاقے پریشان چوک میں اسٹریٹ کرائم کے دوران فائرنگ سے 18 سالہ نوجوان نصیر احمد جاں بحق ہو گیا۔ پولیس کے مطابق مقتول بلدیہ عابد آباد کا رہائشی تھا اور چار بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔ واقعہ اس وقت پیش آیا جب دو ڈاکوؤں نے لوٹ مار کی کوشش کی، شور مچانے پر ملزمان نے فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ حدود کے تعین میں تاخیر کے باعث مقتول کی لاش تین گھنٹے تک سول اسپتال میں پڑی رہی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ رواں سال ڈکیتی کے دوران جاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد 86 ہو چکی ہے۔
کراچی پولیس چیف شہر میں بڑھتے جرائم کے سوال پر برہم
ایک اور سنگین معاملے میں سچل تھانے کی پولیس پر شہری کو اغوا کر کے تاوان طلب کرنے کا الزام سامنے آیا ہے۔ متاثرہ شہری عمر نصیر کے والد کے مطابق ان کا بیٹا جرمنی میں تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس آیا تھا، جس کے بعد سعدی ٹاؤن چوکی کے انچارج نے گھر پر چھاپہ مارا اور عمر نصیر کو ساتھ لے گئے۔
اہل خانہ کے مطابق رہائی کے بدلے دو کروڑ روپے تاوان طلب کیا گیا۔ خاندان کی جانب سے عدالت سے رجوع کرنے پر سول مجسٹریٹ نے سچل تھانے پر چھاپہ مارا، تاہم اس سے قبل ہی پولیس نے عمر نصیر کو رہا کر دیا۔ چھاپے کے دوران تھانے سے عمر نصیر کی گاڑی بھی برآمد ہوئی۔ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
اُدھر کراچی پولیس پر مبینہ طور پر پانچ کروڑ روپے مالیت کی منشیات فروخت کرنے سے متعلق خبر پر کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ منشیات کی بڑی مقدار ضبط کی گئی تھی اور اگر کسی افسر یا اہلکار کی بدعنوانی ثابت ہوئی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈی آئی جی ویسٹ عرفان بلوچ اس معاملے کی انکوائری کر رہے ہیں اور قصورواروں کو مثال بناتے ہوئے سزا دی جائے گی۔
ان واقعات نے ایک بار پھر کراچی میں امن و امان کی صورتحال، اسٹریٹ کرائم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جبکہ شہری مؤثر اقدامات اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔















