بائنینس ٹوکنائزیشن معاہدہ: سابق وزیر خزانہ نے شفافیت پر سوالات اٹھا دیے

بائنینس کو عالمی سطح پر ایسِٹ ٹوکنائزیشن میں نمایاں ادارہ نہیں سمجھا جاتا، سابق وزیر خزانہ اسد عمر
اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2025 03:49pm

حکومتِ پاکستان کی جانب سے عالمی ڈیجیٹل اثاثہ کمپنی بائنینس کے ساتھ 2 ارب ڈالر کے اثاثہ جاتی ٹوکنائزیشن معاہدے پر دستخط کے بعد سابق وزیرِ خزانہ اسد عمر نے اس منصوبے کے انتخابی عمل اور شفافیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔

حکومتِ پاکستان اور معروف عالمی بلاک چین کمپنی بائنانس انویسٹمنٹس کے درمیان 2 ارب ڈالر کے حقیقی اثاثوں (ریئل ورلڈ ایسٹس) کی ٹوکنائزیشن کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ تاہم اس معاہدے کے بعد اسکی شفافیت اور عالمی سطح کے بڑے اثاثہ جاتی اداروں کی عدم شمولیت پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

سابق وزیرِ خزانہ اسد عمر نے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ حکومت پاکستان اور بائنینس کے درمیان دو ارب ڈالر کا ریئل ورلڈ اثاثہ ٹوکنائزیشن معاہدہ طے پایا ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ بائنینس کا انتخاب کس طریقہ کار کے تحت کیا گیا۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کے مطابق بائنینس عالمی سطح پر اثاثہ ٹوکنائزیشن کے میدان میں کوئی بڑا یا نمایاں ادارہ نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی اس نوعیت کے کام کے لیے اس کی ساکھ سب سے مضبوط مانی جاتی ہے۔

سابق وزیر خزانہ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آیا اس عمل میں عالمی سطح کے بڑے مالیاتی اور اثاثہ ٹوکنائزیشن کے اداروں جیسے بلیک راک، یو بی ایس، گولڈمین سیکس، جے پی مورگن اور ایچ ایس بی سی کو شرکت کی دعوت دی گئی یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کا ڈیجیٹل ٹوکنائزیشن کے شعبے میں پہلا عملی قدم ہے اور ابتدائی معاہدہ ہی مستقبل کی ساکھ اور طویل المدتی کامیابی کی بنیاد رکھے گا، اس لیے فیصلہ سازی کا عمل مکمل طور پر شفاف ہونا چاہیے۔


دوسری جانب وزارتِ خزانہ کے مطابق جمعے کے روز فنانس ڈویژن میں حکومتِ پاکستان اور بائنینس انویسٹمنٹس کمپنی لمیٹڈ کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور بائنینس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر رچرڈ ٹینگ موجود تھے جبکہ بائنینس کے بانی چانگ پینگ ژاؤ نے بھی تقریب میں شرکت کی۔

اس مفاہمتی یادداشت کے تحت پاکستان کے ریئل ورلڈ اور خود مختار اثاثوں کی ٹوکنائزیشن اور بلاک چین کے ذریعے تقسیم کے امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان اثاثوں میں سرکاری بانڈز، ٹریژری بلز، اجناس کے ذخائر اور وفاقی حکومت کی ملکیت میں موجود دیگر اثاثے شامل ہو سکتے ہیں۔

وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ متعلقہ قوانین، پالیسیوں اور ریگولیٹری منظوریوں سے مشروط یہ منصوبہ دو ارب ڈالر تک کے اثاثوں پر محیط ہو سکتا ہے، جس کا مقصد لیکویڈیٹی میں اضافہ، شفافیت کو بہتر بنانا اور پاکستانی اثاثوں کو عالمی منڈیوں تک بہتر رسائی فراہم کرنا ہے۔


ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ پاکستان کے لیے ڈیجیٹل معیشت کی جانب ایک اہم پیش رفت ہو سکتا ہے، تاہم شفافیت، درست شراکت دار کے انتخاب اور مضبوط ریگولیٹری فریم ورک کے بغیر ایسے اقدامات پر سوالات اٹھنا فطری عمل ہے۔ آنے والے دنوں میں اس منصوبے کی تفصیلات اور عملی پیش رفت اس کے اثرات کو مزید واضح کر دے گی۔

asad umar

Finance Ministry

binance

Paksitan Crypto Council

Binance Investments