غیرملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے درمیان امریکی’گولڈ کارڈ’ ویزا کا اجراء
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ کے دوران اعلان کیا ہے کہ امریکا تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ایک بار پھر عالمی ٹیکنالوجی لیڈرشپ سنبھال رہا ہے اور اسی سلسلے میں حکومت نے ‘ٹرمپ گولڈ کارڈ’ کے نام سے ایک نئی امیگریشن اسکیم متعارف کر دی ہے۔ اس اسکیم کے تحت اہل اور جانچ پر کھرا اُترنے والے غیر ملکی سرمایہ کار دس لاکھ ڈالر کی ادائیگی کے ذریعے امریکا کی مستقل رہائش حاصل کر سکیں گے۔
دی گارجین کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ صرف ایک سال پہلے امریکا کو دیوالیہ قرار دینے کی باتیں کی جا رہی تھیں، مگر آج امریکی اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور دنیا بھر کے سرمایہ کار امریکا کو سب سے پرکشش مقام کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کا نیا حکم: غیر ملکی ملازمین کے لیے ویزا میں مزید سختی
ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی ویب سائٹ کے مطابق گولڈ کارڈ ویزا کی پراسیسنگ فیس 15 ہزار ڈالر مقرر کی گئی ہے۔ سرمایہ کاروں کو پس منظر کی جانچ کے بعد 10 لاکھ ڈالر جمع کروانا ہوں گے، جبکہ وہ کمپنیاں جو غیر ملکی ماہر ملازمین کو اسپانسر کرنا چاہیں گی انہیں 20 لاکھ ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ایک فیصد سالانہ مینٹیننس فیس یعنی 20 ہزار ڈالر اور ہر ملازم کی ویزا ٹرانسفر پر پانچ فیصد یعنی ایک لاکھ ڈالر اضافی دینا ہوں گے۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ پروگرام امریکا کے لیے “اربوں ڈالر کی آمدن” کا ذریعہ بنے گا اور مملکت “اس فنڈز کو ملک کی بہتری کے منصوبوں میں استعمال کرے گی”۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اسکیم دنیا بھر سے ایسے افراد کو امریکا لائے گی جو کامیاب، باصلاحیت اور نمایاں معاشی اثر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سرکاری اعلان میں یہ بھی بتایا گیا کہ جلد ہی “ٹرمپ پلاٹینم کارڈ” بھی متعارف کیا جائے گا جس کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر ہو گی۔ اس کارڈ کے حامل افراد سال میں 270 دن امریکا میں رہ سکیں گے اور بیرونِ امریکا ہونے والی آمدن پر امریکی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
ٹرمپ نے امریکی بزنس ویزے کی فیس بڑھا دی، بھارتی کمپنیوں کے اسٹاک گر گئے
ڈی ایچ ایس کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پروگرام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس تاریخی اقدام کے تحت وہ افراد اور کمپنیاں جو بالترتیب ایک ملین اور دو ملین ڈالر کی رقم جمع کرائیں گی، سخت جانچ پڑتال کے بعد تیزی سے ای بی ون اور ای بی ٹُو ( EB-1 & EB-2 ) کیٹیگری کے گرین کارڈ حاصل کر سکیں گی۔
دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ سخت امیگریشن پالیسیوں اور بڑے پیمانے پر ڈیپورٹیشن کے پس منظر میں یہ پروگرام کم آمدنی والے تارکینِ وطن کے لیے امریکی روایات کے برعکس ایک “امیر دوست ویزا اسکیم” دکھائی دیتا ہے۔














