’پاکستان امریکا کے ساتھ مؤثر سفارتی تعلقات بنانے میں کامیاب؛ بڑا فوجی یا معاشی پیکیج ملنے کا امکان کم‘
امریکی جریدے فارن پالیسی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں خاصی بہتری دیکھی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ مضبوط ذاتی روابط نے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد پیدا کیا، جس کا فائدہ سفارتی تعاون کی صورت میں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے اہم مواقع پر امریکا کے ساتھ بھرپور اشتراک کیا، جس میں کابل دھماکے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری میں مدد بھی شامل تھی۔ امریکی صدر نے اس تعاون کو سراہتے ہوئے کانگریس میں خطاب کے دوران پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ اس اقدام نے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی نئی بنیاد رکھی۔
فارن پالیسی کے مطابق پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے کرپٹو کرنسی اور معدنیات جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری اور تعاون کو فروغ دیا۔ اس معاملے میں اہم پیش رفت اُس وقت سامنے آئی جب ایف ڈبلیو او اور ایک امریکی کمپنی کے درمیان پانچ سو ملین ڈالر مالیت کا معاہدہ ہوا، جس کا مقصد کرٹیکل منرلز کی فراہمی تھا۔ یہ وہ شعبہ ہے جسے امریکا اپنی اسٹریٹجک ضرورت قرار دیتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان نے ٹرمپ کے قریبی لابیسٹ اور کاروباری شخصیات کے ساتھ بھی رابطے بڑھائے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی کرپٹو پالیسی میں دلچسپی ظاہر کی۔ دونوں ملکوں کے درمیان کرپٹو اور بلاک چین ٹیکنالوجی میں تعاون سے متعلق متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔
مزید یہ کہ مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران اچانک ہونے والی جنگ بندی کو صدر ٹرمپ نے اپنی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا، جبکہ پاکستان نے بھی کھل کر اس کا اعتراف کیا۔ بھارت نے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا، تاہم رپورٹ کے مطابق اس موقع پر بھی پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے قریب نظر آئے۔
فارن پالیسی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں امریکا کے بھارت کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار رہے، جبکہ پاکستان نے مختلف سفارتی، معاشی اور اسٹریٹجک پہلوؤں پر کام کر کے واشنگٹن سے بہتر روابط قائم کیے۔
تاہم، ماہرین کے مطابق اس بہتری کے باوجود پاکستان کو کوئی بڑا فوجی یا معاشی پیکیج ملنے کا امکان کم ہے، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ عمومی طور پر ایسے اقدامات سے گریز کرتی رہی ہے۔
پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اس حوالے سے کہا کہ “پاکستان ہمیشہ معاشی مدد کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن اسے اس بار کوئی مدد نہیں ملے گی کیونکہ ٹرمپ کسی کو بھی معاشی امداد نہیں دے رہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “ہاں، امریکا عوامی سطح پر پاکستان پر کم تنقید کرے گا، جو ایک سیاسی فائدہ ہے۔ ممکن ہے کہ امریکا افغانستان کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ کام کرے، لیکن وہ پہلے بھی ایسا ہی کر رہا تھا۔ مجھے مستقبل قریب میں پاکستان کو کسی بڑے فوجی ہتھیار یا ساز و سامان کی فروخت نظر نہیں آتی۔”
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے لیے اصل چیلنج اس تعلق کو برقرار رکھنا اور اسے کسی ایک شخصیت کے بجائے مستقل پالیسی میں بدلنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے معدنیات، علاقائی استحکام اور باہمی تعاون جیسے شعبے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔











