امریکی وزیرِ دفاع اسکینڈلز کی زد میں آگئے، مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھ گیا
امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ پر ایک انسپکٹر جنرل کی رپورٹ اور کیریبین سمندر میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات کی وجہ سے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق انسپکٹر جنرل کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیگستھ نے حساس عسکری معلومات کو غیر مناسب طریقے سے استعمال کیا، جب کہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کیریبین سمندر میں عام کشتیوں پر حملوں کی منظوری دی۔
ان حملوں میں 22 کارروائیوں کے دوران 87 افراد ہلاک ہوئے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر الزامات ثابت ہوئے تو یہ کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں کے ارکانِ کانگرس ان حملوں کو ’غیر ضروری اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے وزیر دفاع کے فوری استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ کارروائیاں منشیات لے جانے والی کشتیوں پر کی گئیں اور ان سے ’ 25 ہزار امریکی شہریوں کی جانیں بچائی گئیں‘، تاہم ڈیموکریٹک کاکس کے 116 ارکان نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کارروائیوں نے امریکی اہلکاروں کی جانوں کو غیر ضروری خطرے میں ڈالا۔
امریکا کا مشرقی بحرالکاہل میں منشیات بردار کشتی پر ایک اور حملہ، 4 افراد ہلاک
پہلا اسکینڈل کیریبین میں ٹرمپ انتظامیہ کے اُن فضائی حملوں سے متعلق ہے جو مشتبہ منشیات اسمگلرز کے خلاف کیے گئے۔ ستمبر سے اب تک 22 حملوں میں کم از کم 87 افراد مارے جا چکے ہیں۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ہر تباہ شدہ کشتی 25 ہزار امریکی جانیں ”بچاتی“ ہے، مگر سابق حکام اور ماہرین اسے بے بنیاد قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکہ میں فینٹانائل زیادہ تر میکسیکو سے زمینی راستے آتا ہے، نہ کہ ونزوئیلا سے بحری راستے۔
تنازع اُس وقت زیادہ بڑھا جب یہ انکشاف ہوا کہ 2 ستمبر کے حملے میں تباہ شدہ کشتی کے ملبے میں موجود دو زندہ افراد کو بعد میں کیے گئے ’ڈبل ٹیپ‘ حملے میں ہلاک کیا گیا۔
امریکی وزیر دفاع کا طیارہ بڑے حادثے سے بچ گیا
ہیگستھ نے شروع میں اسے ’من گھڑت‘ کہا، مگر اس ہفتے ایک کابینی اجلاس میں انہوں نے بنیادی حقائق تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ’جنگ کے دھندلے ماحول میں فیصلہ کیا اور آگے کی کارروائی دیکھنے کے لیے نہیں رکے‘۔
سینیٹر پیٹی مری نے بریفنگ کے بعد واضح طور پر ہیگستھ کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ’جنگی منصوبے پر شیئر کرنا ہو یا کیریبین مہم کی نگرانی، یہ سب ثابت کرتا ہے کہ ہیگستھ اس منصب کے اہل نہیں۔ انہیں فوراً استعفیٰ دینا چاہیے۔‘
ایوانِ نمائندگان کے سب سے بڑے ڈیموکریٹک گروپ ”نیو ڈیموکریٹ کولیشن“ نے بھی ہیگستھ کو ”انتہائی لاپرواہ، نا اہل اور امریکی فوجیوں کی جانوں کے لیے خطرہ“ قرار دیا۔
منشیات روکنے سے متعلق سابق حکومتی ماہرین بھی ان حملوں کی منطق پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ٹرمپ کابینہ میں شامل وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کی انتہاپسند ذہنیت آشکار
جیک براؤن، جو بائیڈن انتظامیہ میں سائبر سکیورٹی کے اعلیٰ عہدے پر رہ چکے ہیں، نے کہا ’فوجی کارروائی ٹھیک ہے، لیکن یہ مہم اصل ہدف یعنی میکسیکو سے تقریباً 2,500 میل دور ہے۔ فینٹانائل رکوانا ہے تو اریزونا کی سرنگوں اور ڈرونز پر توجہ دیں، کیریبین کی کشتیوں پر نہیں۔‘
ایئر وارز کی ڈائریکٹر ایملی ٹرپ نے کہا کہ مزید شفافیت ضروری ہے، یہ جاننے کے لیے کہ ’تباہ شدہ کشتیوں میں موجود زندہ افراد کو بچانے کے بجائے طاقت کا استعمال کیوں کیا گیا؟‘
حملے کس کے حکم پر کیے گئے؟ اس بارے میں بھی حکومت کے مؤقف میں تضاد رہا۔ وہائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ ایڈمرل فرینک بریڈلی نے ’سیلف ڈیفنس‘ میں دوسرا حملہ کروایا، جب کہ ہیگستھ نے بعد میں کہا کہ یہ فیصلہ ’ اُن کی منظوری سے‘ ہوا مگر بریڈلی کو مکمل اختیار حاصل تھا۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ ”آپریشنل تفصیلات“ سے واقف نہیں تھے اور وہ “ایسا دوسرا حملہ نہیں چاہتے تھے‘۔
ہفتے کو جاری ہونے والی انسپکٹر جنرل رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہیگستھ نے پینٹاگون کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیگنل ایپ کے ذریعے 15 مارچ کو یمن پر ہونے والے امریکی فضائی حملوں کی حساس تفصیلات جس میں طیاروں کی تعداد اور حملے کے اوقات شامل تھے، مشن سے دو سے چار گھنٹے قبل شیئر کیں۔
یہ اقدام، رپورٹ کے مطابق، امریکی فوج اور پائلٹس کی جانوں کو براہِ راست خطرے میں ڈال سکتا تھا۔
ان تمام الزامات کے باوجود ہیگستھ نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا ہے، اور سابق صدر ٹرمپ اب بھی انہیں مکمل سیاسی حمایت فراہم کر رہے ہیں۔















