انڈیگو بحران: بھارت کمرشل ایئرلائنز کے لیے قبرستان کیوں بن رہا ہے؟

ایسٹ ویسٹ سے گوفرسٹ تک 1991 کے بعد دو درجن ایئرلائنز کا خاتمہ، مہنگا فیول، کم کرایے اور ڈالر کی اونچی قیمت بنیادی وجوہات
شائع 06 دسمبر 2025 09:52am

بھارت کی ایوی ایشن انڈسٹری ایک بار پھر بحران کا شکار ہے، اور انڈیگو کے حالیہ مسائل نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ 1991 کی لبرلائزیشن کے بعد آخر کیوں بھارت دنیا کا سب سے بڑا ایئرلائنز قبرستان بن گیا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں کم از کم دو درجن نجی ایئرلائنز دیوالیہ، مقروض یا بند ہو کر تاریخ کا حصہ بن گئیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق، بھارت کی ایوی ایشن انڈسٹری میں ایک پرانا مذاق مشہور ہے’ اگر آپ کو چھوٹی دولت کمانی ہے تو بڑی دولت سے ایئرلائن شروع کریں۔‘ یہ جملہ بھارتی فضاؤں کی حقیقت بیان کرتا ہے، جہاں 1991 میں نجی شعبے کو اجازت ملنے کے بعد سے اب تک درجنوں ایئرلائنز ختم ہو چکی ہیں۔

ایسٹ ویسٹ ایئرلائن لبرلائزیشن کے بعد سب سے پہلی نجی ایئرلائن تھی، لیکن کم کرایوں کی جنگ، بھاری قرض اور فنڈز کے بحران نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ 1995 میں کیرالا سے تعلق رکھنے والے کمپنی کے مالک تقی الدین واحد قتل ہوئے ، اور 1996 تک ایئرلائن مکمل طور پر بند ہو گئی۔ ڈمانیا ایئر ویز نے پریمیم مختصر رُوٹ متعارف کرائے لیکن کم کرایوں کی وجہ سے اخراجات پورے نہیں ہو سکے اور کمپنی 1997 میں بند ہو گئی۔

AAJ News Whatsapp

موڈی لفٹ لفتھانزا کے ساتھ جوائنٹ وینچر تھا، لیکن تنازعات کے باعث 1996 میں لفتھانزا نے طیارے واپس لے لیے، اور ایئرلائن فوراً بند ہو گئی۔ ایئر سہارا چند سال بڑے پیمانے پر چلی لیکن 1997–98 کے مالی بحران نے اسے ڈگمگا دیا، جس کے بعد وہ پہلے جزوی اور پھر مکمل طور پر جیٹ ایئرویز کو بیچ دی گئی۔

1953 کے ایئر کارپوریشن ایکٹ کے تحت دہائیوں تک صرف دو سرکاری کمپنیاں—ایئر انڈیا اور انڈین ایئرلائنز—کو اجارہ داری حاصل تھی۔ 1991 میں معاشی اصلاحات کے بعد پہلی بار نجی کمپنیوں کو پروازیں چلانے کی اجازت ملی۔

ایسٹ ویسٹ، جیٹ ایئر ویز، ڈمانیا، موڈی لفٹ اور این ای پی سی جیسے نام منظرِ عام پر آئے۔ یہ کمپنیاں جدید خدمات، کم کرایوں اور بہتر وقت کی پابندی کا دعویٰ کرتی تھیں، لیکن زیادہ تر چند ہی سالوں میں ختم ہو گئیں۔

2000 کی دہائی: کم لاگت ایئرلائنز کا زمانہ

ایئر ڈکن نے 2003 میں سستے سفر کا آغاز کیا اور فضائی سفر کو عام آدمی تک پہنچایا۔ لیکن کم منافع، بلند اخراجات اور تیز مقابلے نے اسے بھی جلد ختم کر دیا۔ کنگ فشر ایئرلائن عیاشی اور بھاری اخراجات کے بوجھ تلے دبی اور 2012 میں 8 ہزار کروڑ روپے کے قرض کے ساتھ بند ہوئی۔ علاقائی ایئرلائنز, ایئر کوسٹا، پیگاسس، اڑیسہ اور دیگر ایئر لائنز بھی چند سال سے زیادہ نہ چل سکیں۔

بھارتی ایئرپورٹس پر افراتفری: ملک کی سب سے بڑی ایئرلائن کی سیکڑوں پروازیں منسوخ

جیٹ ایر ویز جو کبھی بھارت کی سب سے مضبوط نجی ایئرلائن سمجھی جاتی تھی، 2019 میں دیوالیہ ہو گئی۔ گوفرسٹ نے 2023 میں بینک کرپسی کا اعلان کر دیا، انجن مسائل نے اس کی بیڑہ غرق کر دیا۔

ماہرین کے مطابق بھارتی ایوی ایشن میں بنیادی ڈھانچہ ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔ایوی ایشن ٹربائن فیول آپریشنل اخراجات کا 40 سے 45 فیصد بنتا ہے، جو دنیا بھر سے زیادہ ہے۔

ڈالر مہنگا ہونے سے لیز، مرمت اور فیول کی لاگت بڑھ جاتی ہے، کمپنیاں زیادہ تر لیز پر چلتی ہیں، اور کیش فلو رکنے پر لیز دینے والے طیارے واپس لے لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ صنعت کا مالی ڈھانچہ کمزور ہو جاتا ہے اور ایئرلائنز ایک کے بعد ایک ختم ہوتی جاتی ہیں۔

آگے سے تباہ بھارتی مسافر طیارے کی مقبوضہ کشمیر میں ایمرجنسی لینڈنگ

انڈیگو اس دور میں اپنی سخت نظم و ضبط، واحد طیارہ بیڑے اور کم قرض کی پالیسی کے باعث کامیاب رہا، مگر اب ایف ڈی ٹی ایل قوانین اس کے آپریشن پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ایئر انڈیا ٹاٹا گروپ کے تحت نئے بیڑے اور سرمایہ کاری کے ساتھ ازسرنو ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر ابھی مکمل طور پر مستحکم نہیں۔ اسپائس جیٹ شدید مالی مسائل کے باوجود کام جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ اکاسا ایئر نئی امید کے طور پر ابھر رہی ہے۔

لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بھارت کی فضائیں مسلسل نئی ایئرلائنز کو جنم بھی دیتی ہیں ، نگل بھی لیتی ہیں اور جو سبق نہ سیکھے، وہ اسی قبرستان کا حصہ بن جاتا ہے۔

graveyard

for commercial airlines

is the biggest

Why India

IndiGo crisis