’حوالگی کیس میں بچوں کی خواہش اور ذہنی کیفیت کو مقدم رکھا جائے‘، عدالت کا فیصلہ
لاہور ہائیکورٹ نے بچوں کی حوالگی کے ایک اہم کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کی رائے اور ذہنی کیفیت کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔ عدالت نے 13 سالہ بچے کو اصل والدین کے بجائے لے پالک والدین کے ساتھ رکھنے کا حکم دیا ہے اور ٹرائل کورٹ کا بچہ اصل والدین کے حوالے کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس فیصل زمان خان نے سید ارشد علی کی درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے اصولوں کا حوالہ دیا کہ بچے کی رائے کو ہمیشہ اہمیت دی جانی چاہیے۔ موجودہ کیس میں بچے نے متعدد بار یہ بیان دیا کہ وہ لے پالک والدین کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔
عدالت نے بچے کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے اسے ایک ہفتے کے لیے اصل والدین کے ساتھ بھیجنے کا حکم دیا، تاہم اس نے واضح کیا کہ اصولی طور پر حقیقی والدین کو ترجیحی حق حاصل ہے۔
حکم کے مطابق بچے کے حقیقی والدین پیدائش کے وقت اس کا فیصلہ خود کرنے کے بجائے اپنے بھائی کو دینے کا اختیار استعمال کر چکے تھے، جبکہ لے پالک والدین نے نو سال تک بچے کی پرورش کی اور وہ موجودہ خاندان کے ساتھ اپنے اصل ماحول میں پرورش پا رہا ہے۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ بچے کی موجودہ عمر 13 سال ہے اور اتنے بڑے خاندان میں منتقل کرنا مناسب نہیں، خاص طور پر جب حقیقی والد کی تین شادیاں اور 13 بچے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ حقیقی والدین یہ ثابت نہیں کر سکے کہ بچے کی بہتر پرورش نہیں ہوئی، اور بچے نے بغیر کسی شکایت کے نو سال تک لے پالک والدین کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔
فیصلے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بچہ بغیر کسی شکایت کے نو سال تک انہی لوگوں کے ساتھ رہا جنہوں نے اسے پالا۔ لیکن ایک صبح اچانک اسے یہ بتا دینا کہ وہ اس گھر کا حقیقی فرد نہیں، اس کے لیے سخت ذہنی صدمے کا باعث بنا۔
عدالت کے مطابق بچے کو کسی اجنبی ماحول میں بھیجنا اس کی فلاح و بہبود کے خلاف ہے، جبکہ یہ مقدمہ بچے کی بہتری سے زیادہ گھریلو تنازعے کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے۔ حقیقی والدین ملاقات کے لیے گارڈین کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔











