واشنگٹن حملہ: افغان تارکِ وطن امریکا میں آکر انتہا پسند بنا، ہوم لینڈ سیکرٹری

29 سالہ افغان تارکِ وطن برسوں سے شدید ذہنی تناؤ، معاشرتی تنہائی اور غیر مستحکم طرزِ زندگی کا شکار تھا: رپورٹ
اپ ڈیٹ 01 دسمبر 2025 09:35am

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈ اہلکاروں پر حملہ کرنے والا افغان تارکِ وطن افغانستان میں نہیں بلکہ امریکا آ کر انتہا پسندی کا شکار ہوا۔

امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے اتوار کے روز امریکی نیوز چینل ‘این بی سی’ کے پروگرام ‘میٹ دی پریس’ اور ‘اے بی سی’ کے ‘دِس ویک’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حملے کا ملزم رحمان اللہ لکنوال واشنگٹن اسٹیٹ میں رہائش کے دوران انتہا پسندانہ سوچ کا حامل ہوا۔ امریکی حکام اس کے خاندان اور قریبی لوگوں سے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکام کے مطابق 29 سالہ لکنوال وہ شخص ہے جس نے بدھ کے روز وائٹ ہاؤس سے چند بلاکس کے فاصلے پر نیشنل گارڈ اہلکاروں پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا۔ فائرنگ کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک اور دوسرا شدید زخمی ہوا تھا۔ حملے کے فوراً بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اس واقعے کا الزام سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں افغان شہریوں کی ’ناکافی اسکریننگ‘ پر عائد کیا، حالانکہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق لکنوال کو پناہ (Asylum) خود ٹرمپ انتظامیہ نے اپریل میں دی تھی۔

کیلیفورنیا میں بچے کی سالگرہ کی تقریب کے دوران فائرنگ، 4 افراد ہلاک

لکنوال 2021 میں اس وقت امریکا آیا تھا جب بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان سے ان شہریوں کے انخلا کا بڑا عمل شروع کیا جو دو دہائیوں کی جنگ میں امریکی افواج کے معاون تھے۔ رپورٹس کے مطابق وہ افغانستان میں سی آئی اے کی حمایت یافتہ ایک یونٹ سے وابستہ تھا۔

AAJ News Whatsapp

کرسٹی نوم کا کہنا تھا کہ ثبوتوں سے لگتا ہے کہ امریکا آمد کے بعد ہی اس کے خیالات تبدیل ہوئے اور وہ انتہا پسند حلقوں کے اثر میں آیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ لکن وال کے آس پاس موجود افراد سے تحقیقات جاری ہیں اور اگر کسی نے مدد کی یا معلومات چھپائیں تو کارروائی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا: ”جو بھی شخص اس واقعے کے بارے میں معلومات رکھتا ہے، اسے جان لینا چاہیے کہ ہم اس تک ضرور پہنچیں گے اور اسے انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔“

امریکا میں بم بنانے کا دعویٰ کرنے والا افغان شہری گرفتار

دوسری جانب امریکی خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا کہ ای میلز اور متعلقہ افراد کے بیانات سے معلوم ہوا ہے کہ 29 سالہ افغان تارکِ وطن برسوں سے شدید ذہنی تناؤ، معاشرتی تنہائی اور غیر مستحکم طرزِ زندگی کا شکار تھا، مگر کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک دن ایسا خونی حملہ کر بیٹھے گا۔

رپورٹ کے مطابق، لکنوال کی زندگی امریکا آنے کے بعد مسلسل بکھرتی چلی گئی۔ کبھی وہ ہفتوں تک اندھیرے کمرے میں بند رہتا، کسی سے بات نہ کرتا، اور کبھی اچانک کئی ہفتوں کی لمبی ڈرائیو پر نکل جاتا۔ اس کی ذہنی حالت اتنی بگڑ چکی تھی کہ ایک کمیونٹی کارکن نے خوف کے باعث ایک ریفیوجی ادارے سے مدد مانگی، انہیں خدشہ تھا کہ لکنوال کہیں خودکشی نہ کر لے۔

کمیونٹی کارکن کے بقول: ”میں نے ہمیشہ سوچا کہ وہ خود کو نقصان پہنچا سکتا ہے، مگر کبھی نہیں لگا کہ وہ کسی دوسرے پر حملہ کرے گا۔“

رپورٹ کے مطابق ایک بار وہ گاڑی میں بیٹھ کر شکاگو تک گیا، کبھی اریزونا پہنچ گیا۔ تحقیق کاروں کے مطابق اسی طرز پر وہ بیلنگھم سے واشنگٹن ڈی سی پہنچا جہاں حملہ کیا گیا۔

لکنوال اپنی اہلیہ اور پانچ کم سن بچوں کے ساتھ واشنگٹن اسٹیٹ میں رہ رہا تھا۔ کمیونٹی ورکرز کے مطابق وہ ایک سال سے نہ کام کر پا رہا تھا اور نہ ہی خاندان کی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ وہ 2023 کے بعد سے ”بالکل غیر فعال“ ہو گیا تھا، نوکری چھوڑ دی تھی، گھر کا کرایہ مہینوں سے نہیں دیا تھا، حتیٰ کہ بچے تک ٹھیک طرح نہ کھاتے تھے اور نہ ہی صاف ستھرے رہ پاتے تھے۔

اس کی بیوی جب کبھی چند دن کے لیے رشتے داروں کے پاس چلی جاتی، تو بچے نہ نہائے ہوتے، نہ ان کے کپڑے بدلے جاتے، نہ انہیں مناسب کھانا ملتا۔ اسکول انتظامیہ نے بھی اس صورتحال پر تشویش ظاہر کی تھی۔

لکنوال افغانستان میں سی آئی اے کی حمایت یافتہ ”زیرو یونٹ“ کا حصہ تھا اور 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد ”آپریشن الائز ویلکم“ کے تحت امریکا منتقل کیا گیا۔

کمیونٹی کارکن کی جانب سے مسلسل ای میلز کے باوجود ریفیوجی ادارے نے مارچ 2024 میں صرف ایک مرتبہ لکنوال کے گھر کا دورہ کیا، مگر وہ تعاون پر تیار نہیں تھا۔ مزید پیش رفت نہ ہونے پر معاملہ جوں کا توں پڑا رہا، یہاں تک کہ بدھ کا خونریز واقعہ ہوگیا۔

فائرنگ کے واقعے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے قانونی امیگریشن پر سخت پابندیاں نافذ کر دی ہیں، جن میں تمام اسائلم درخواستوں کی پروسیسنگ کو عارضی طور پر منجمد کرنا بھی شامل ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اسائلم انٹری کو طویل عرصے کے لیے روکا جا سکتا ہے کیونکہ ”ہمیں مزید مسائل نہیں چاہئیں۔“

۔

ادھر کرسٹی نوم نے واضح کیا کہ زیرِ التوا اسائلم کیسز رکھنے والے افراد کو بھی اگر ضرورت پڑی تو بے دخلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کے بقول: ”ہم ہر اس شخص کے کیس کی چھان بین کریں گے جس کی اسائلم درخواست ابھی زیر غور ہے۔“

President Donald Trump

Kristi Noem

Rahmanullah Lakanwal

Afghan Asylum US

Homeland Security

Attack on National Guards

Washington Attack