پاکستان کے آتش فشاں پہاڑ، جہاں خوف نہیں پوجا ہوتی ہے
پاکستان عام طور پر بلند و بالا سفید پوش پہاڑوں اور سرسبز وادیوں کی سرزمین کے طور پر مشہور ہے مگر اسکے صوبہ بلوچستان میں زمین کے نیچے ایک اور دنیا بھی آباد ہے، جہاں نہ صرف مٹی کے آتش فشاں کثرت سے پائے جاتے ہیں بلکہ اسے مقدس مقام کا درجہ بھی حاصل ہے۔
ماہرینِ ارضیات کے مطابق بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ’مٹی کے آتش فشاں‘ (Mud Volcanoes) کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
ناسا ارتھ آبزرویٹری کے مطابق یہ ’مٹی کے آتش فشاں‘ لاوا اگلنے والے آتش فشاں پہاڑوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان سے پِگھلا ہوا لاوا نہیں بلکہ زیرَ زمین گیسوں (خاص طور پر میتھین)، پانی، اور کیچڑ کا اخراج ہوتا ہے۔
پاکستان میں پائے جانے والے مٹی کے یہ آتش فشاں دنیا کے سب سے بڑے اور فعال مٹی کے آتش فشاں کہلاتے ہیں اور ان کی اکثریت بلوچستان کے ساحلی علاقے (مکران زون) میں پائی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، مٹی کے آتش فشاں اس وقت بنتے ہیں جب ٹیکٹونک پلیٹس کے اثرات سے زیرِ زمین دباؤ بڑھتا ہے اور مٹی، پانی اور میتھین گیس سطح پر آ جاتی ہے۔
جنوری 2024 کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں 80 سے زائد مٹی کے آتش فشاں موجود ہیں، جو کہ ملک کے ارضیاتی منظرنامے کا ایک اہم حصہ ہیں۔
بلوچستان کے ہنگول نیشنل پارک میں واقع مٹی کا آتش فشاں ’چندراگپ‘ نہ صرف ایک جغرافیائی عجوبہ ہے بلکہ ہزاروں ہندو یاتریوں کے لیے مذہبی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ یہ آتش فشاں مٹی اور میتھین گیس خارج کرتا ہے اور ہندو کمیونٹی کے لیے مقدس مقام کا درجہ بھی رکھتا ہے۔
چندراگپ کمپلیکس تین آتش فشاؤں کا مجموعہ ہے جس میں چندراگپ 1 تقریباً 300 فٹ بلند ہے۔ یہ ہندو یاتریوں کی شری ہنگلاج مندر کی یاترا کے دوران لازمی زیارت کا حصہ ہے۔
نیوز ویب سائٹ ٹائمز ناؤ کے مطابق مٹی کے اس آتش فشاں کو ’بھگوان شیو‘ کے مظہر کے طور پر عقیدت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے اور ’بابا چندراگپ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عبادت کے دوران یاتری ناریل، پھول اور دیگر نذرانے پیش کرتے ہیں اور اپنی دعاؤں کی قبولیت پر شکر ادا کرتے ہیں۔
زائرین کا ماننا ہے کہ صرف بابا چندراگپ کی زیارت کے بعد ہی وہ ہنگلاج مندر کی یاترا شروع کر سکتے ہیں۔آتش فشاں پر چڑھائی سے قبل یاتری رات بھر جاگ کر روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔
ایتھوپیا کے آتش فشاں کے اثرات؛ ’پاکستان کو اب کوئی خطرہ نہیں‘، محکمہ موسمیات
اتوار کے روز ایتھوپیا کے شمالی علاقے میں 12 ہزار سال سے خاموش آتش فشاں پھٹ گیا۔ جس کے بعد اٹھنے والے راکھ کے بڑے بادل بحیرہ احمر عبور کرتے ہوئے یمن، عمان، پاکستان کے بعد بھارت تک پہنچے۔
اس خطے کی تاریخ میں پہلی بار کسی آتش فشاں پھٹنے سے اس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے باقاعدہ وارننگ جاری کی گی کہ اندرونِ ملک پروازیں 34 سے 36 ہزار فٹ جبکہ بین الاقوامی پروازیں 40 سے 45 ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتی ہیں، اس لیے یہ راکھ جہازوں کے انجن کو متاثر کر سکتی ہے۔
بعد ازاں محکمہ موسمیات کے ترجمان انجم نذیر کا کہنا تھا کہ آتش فشاں کی راکھ سے بننے والا بادل اب بھارت کی جانب بڑھ چکا ہے اور پاکستان کا فضائی علاقہ صاف ہوچکا ہے۔اس راکھ سے پاکستان کے شمالی علاقوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

















