نائجیریا: کیتھولک اسکول سے 315 بچے اور اساتذہ اغوا
نائجیریا میں مسلح گروہوں کے ایک اور ہولناک حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نائیجر ریاست کے ایک کیتھولک اسکول سے 315 طلبہ اور اساتذہ کو اغوا کر لیا گیا، جو نائجیریا کی تاریخ کے بدترین اجتماعی اغوا کے واقعات میں سے ایک ہے۔
یہ واقعہ جمعے کی صبح سینٹ میری اسکول میں پیش آیا۔ ابتدا میں 227 افراد کے اغوا کی اطلاع ملی تھی، مگر کرسچن ایسوسی ایشن آف نائجیریا (سی اے این) نے مزید تصدیق کے بعد تعداد 315 بتائی، جس میں وہ 88 بچے بھی شامل ہیں جو بھاگ کر بچنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
سی اے این کے مطابق، اغوا ہونے والوں میں 303 طلبہ اور 12 اساتذہ شامل ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں نائجیریا مسلح گروہوں اور شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کی زد میں ہے۔ امریکا پہلے ہی اس صورتحال پر تشویش ظاہر کر چکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی مسیحی برادری کے خلاف مبینہ تشدد پر نائجیریا کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
اگر یہ تعداد درست ثابت ہوتی ہے تو یہ 2014 میں چیبوک کے بوکوحرام حملے میں اغوا ہونے والی 276 طالبات سے بھی زیادہ ہو جائے گی، جو عالمی سطح پر شدید غم و غصے کا سبب بنا تھا۔
نائیجر ریاست کی حکومت کا کہنا ہے کہ اسکول انتظامیہ کو پہلے ہی خبردار کیا گیا تھا کہ شدت پسندوں کے حملے کا خدشہ ہے، اس لیے بورڈنگ اسکولوں کو بند کر دیا جائے۔ مگر مقامی چرچ حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ایسا کوئی نوٹس نہیں ملا۔
سی اے این کے چیئرمین ریورنڈ بولُس یوہنّا نے کہا کہ ”ہم حکومتی اداروں اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بچوں کو محفوظ واپس لایا جا سکے۔“
واقعے کے بعد مرکزی حکومت نے ملک بھر میں تقریباً 50 فیڈرل کالجز بند کرنے کا حکم دے دیا ہے، جبکہ مختلف ریاستوں میں سرکاری اسکول بھی بند کیے جا رہے ہیں۔
نائجیریا شدت پسندی کے خلاف امریکی تعاون پر راضی
یہ اغوا تین روز میں ہونے والا تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ پیر کو اسکول کی 25 بچیوں کو کیبی ریاست سے اٹھایا گیا جبکہ بدھ کو چرچ کے 38 عبادت گزار کُوارا ریاست میں اغوا ہوئے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکا نائجیریا پر پابندیوں، یا انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں پینٹاگون کی شمولیت جیسے اقدامات پر غور کر رہا ہے، تاکہ مسیحی برادری کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
دوسری طرف نائجیریا کی حکومت کا کہنا ہے کہ صرف مسیحیوں کو نشانہ بنانے کی بات حقیقت سے ہٹ کر ہے، اور ملک کو درپیش سیکورٹی چیلنجز کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔













