امن معاہدے پر دباؤ، امریکا کی یوکرین کو انٹیلی جنس اور اسلحہ روکنے کی دھمکی
امریکا نے مجوزہ امن معاہدہ تسلیم کرنے کے لیے یوکرین پر شدید دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر کییف نے امریکا کی جانب سے تیار کردہ امن فارمولے پر اتفاق نہ کیا تو اس کے لیے انٹیلی جنس شیئرنگ اور اسلحے کی فراہمی محدود کر دی جائے گی۔ اس معاملے سے واقف دو اعلیٰ ذرائع نے خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کو بتایا کہ واشنگٹن کا یہ دباؤ اب تک کے تمام مذاکراتی مراحل سے کہیں زیادہ سخت ہے۔
ذرائع کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ یوکرین آئندہ جمعرات تک اس امن معاہدے کے بنیادی فریم ورک پر دستخط کر دے۔ ایک ذریعے نے کہا کہ ”امریکی صدر جنگ روکنا چاہتے ہیں، اور اس کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ قیمت یوکرین ادا کرے۔“
امریکی حکومت نے یوکرین کو جو 28 نکاتی پلان دیا ہے اس میں کئی نکات روس کے اہم مطالبات سے میل کھاتے ہیں۔
ان میں یوکرین سے مزید علاقہ چھوڑنے کا تقاضا، ملکی فوج کی تعداد میں نمایاں کمی، اور نیٹو میں شمولیت پر پابندی شامل ہے۔
ان شرائط نے یوکرین کےلیے صورتحال مزید مشکل بنا دی ہے، کیونکہ یہ نکات اس کے بنیادی دفاعی اور سیاسی مفادات کے خلاف سمجھے جاتے ہیں۔
گزشتہ روز اعلیٰ امریکی فوجی حکام کا ایک وفد کییف پہنچا جہاں انہوں نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں امن مذاکرات کے ممکنہ راستے پر گفتگو ہوئی۔
امریکی سفیر اور وفد کے ساتھ آنے والے فوجی افسران نے اس ملاقات کو ’کامیاب‘ قرار دیا اور کہا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ معاہدے پر دستخط کیلئے ایک ’جارحانہ ٹائم لائن‘ اختیار کی جائے۔
حالیہ پیش رفت سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا اب جنگ کو جلد ختم کرانا چاہتا ہے، چاہے اس کے بدلے میں یوکرین کو بہت بڑے اسٹریٹیجک نقصانات ہی کیوں نہ اٹھانے پڑیں۔
دوسری جانب یوکرین کے حکام عوامی سطح پر ایسے کسی معاہدے سے ہمیشہ انکار کرتے رہے ہیں جس میں علاقہ چھوڑنے یا نیٹو سے دور رہنے کی شرائط شامل ہوں۔











