چوری شدہ نمبر پلیٹیں اور دوسرے صوبوں کے ای چالان کراچی والوں کے گلے پڑ گئے
کراچی میں ای چالان سسٹم شروع ہونے کے بعد شہریوں کو ایک نئے اور حیران کن مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انکشاف ہوا ہے کہ دوسرے صوبوں میں رجسٹرڈ گاڑیوں کے بھاری جرمانے بھی کراچی کے شہریوں کو موصول ہونے لگے ہیں، اور اس صورتحال نے لوگوں میں شدید بے چینی پیدا کردی ہے۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب کراچی نمبر پلیٹ والی فائیو اسٹار ہوٹل کی ایک کار ”AAR 540“ کے اصل مالک کو 10 ہزار روپے کا بھاری ای چالان موصول ہوا۔
تحقیق سے پتا چلا کہ یہ وہی گاڑی ہے جو 22 مئی 1997 کو شاہراہ فیصل پر فیاض سینٹر کے قریب پارکنگ سے چوری ہوئی تھی۔ اس کار کا مقدمہ 122/97 کے نمبر سے صدر تھانے میں درج ہوا تھا، لیکن 28 سال گزر جانے کے باوجود گاڑی برآمد نہیں ہوسکی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو گاڑی چوری ہوئی تھی وہ مہران تھی، لیکن جس گاڑی کا سیٹ بیلٹ نہ پہننے پر چالان ہوا وہ سوزوکی آلٹو نکلی۔ اس سے شبہ پیدا ہوا کہ کسی نے کراچی کی پرانی مسروقہ گاڑی کا نمبر بلوچستان میں رجسٹرڈ اپنی گاڑی پر لگا رکھا ہے۔
مزید تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ کراچی رجسٹریشن نمبر AAR 540 سے ملتی جلتی سوزوکی آلٹو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں شہری رحمت اللہ کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔
جب یہ گاڑی بلوچستان سے کراچی کی جانب آئی تو حب ریور روڈ کے قریب حب ٹول پلازہ پر سیٹ بیلٹ کی خلاف ورزی کا چالان ہوا۔ ایک ہی نمبر پلیٹ ہونے کی وجہ سے چالان کراچی کے اصل مالک کے پتے پر پہنچ گیا۔
ذرائع کے مطابق بلوچستان میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا نظام مکمل طور پر آن لائن نہیں ہے، جس کے باعث کراچی پولیس کو ایسے کیسز میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
دوسری جانب ترجمان ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ ٹریفک پولیس کی جانب سے نجی ہوٹل کو دیئے جانے والے ای چالان کو کلوز کردیا گیا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ گاڑی کا چالان پرانا اور ابتدائی دنوں کا تھا، ان دنوں اے وی ایل سی کے کرائم ڈیٹا سسٹم کے ساتھ انٹیگریشن عمل چل رہا تھا۔
ترجمان کے مطابق کراچی ٹریفک پولیس کے نظام میں بتدریج بہتری کا عمل جاری ہے، اس ہی وجہ سے پرانےکیسز اب سامنے آسکتے ہیں۔
انوہں نے کہا کہ مستقبل میں ایسی غلط فہمیاں نہ ہونے کے برابر ہوں گی۔ چالان کےحوالے سے متعلقہ مالک کو ریلیف فراہم کیا ہے۔
چوری شدہ یا نقل شدہ نمبر پلیٹوں کی وجہ سے بے گناہ شہریوں پر جرمانے آرہے ہیں، جبکہ اصل خلاف ورزی کرنے والے باآسانی بچ نکلتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صوبوں کے درمیان رجسٹریشن ڈیٹا کو مرکزی نظام سے منسلک نہ کیا گیا تو ایسے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔















