فیک تصاویر اور ویڈیوز کے نقصانات سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

اصل اور جعلی ویڈیو یا آڈیو کو دیکھ یا سُن کر فرق کرنا ماہرین کے لیے بھی تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔
اپ ڈیٹ 17 نومبر 2025 03:05pm

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی ترقی اور اسکے بڑھتے ہوئے استعمال نے ماہرین کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، جہاں اصل اور جعلی ویڈیو یا آڈیو میں فرق کرنا اب انسانوں، حتیٰ کہ ماہرین کے لیے بھی تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔

نیویارک میں منعقدہ دبئی بزنس فورم میں بھی ٹیکنالوجی کے ماہرین نے خبردار کیا کہ جدید ڈیپ فیک ٹیکنالوجی چند منٹ میں ایسی حقیقی ویڈیوز بنا سکتی ہے جنہیں دیکھ کر اصل اور جعل سازی میں فرق کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔

خلیج ٹائمز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی رفتار تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے اور تیزی سے بڑھتا ہوا یہ خطرہ کاروبار، حکومتوں اور عام شہریوں، سب کے لیے چیلنج بنتا جارہا ہے۔

گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے وزیرِ معیشت عبداللہ بن طوق المری نے اپنی جعلی ڈیپ فیک ویڈیوز پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا جس میں انہیں جھوٹے سرمایہ کاری منصوبوں کی تشہیر کرتے دکھایا گیا۔

جس کے بعد انہوں نے عوام کو ہدایت کی تھی کہ درست معلومات کے لیے صرف سرکاری ذرائع سے ہی استفادہ کیا جائے۔

AAJ News Whatsapp

برطانیہ کی پہلی اے آئی نیوز اینکر کی اصلیت جان کر ناظرین ہکا بکا

سائبر کرائم کے لیے مہارت کی ضرورت ختم

دبئی بزنس فورم میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے بین کولمین، جو ٹیک ایکسپرٹ اور اے آئی سے تیار کردہ میڈیا کی تشخیص کے لیے ٹولز بناتے ہیں، نے کہا کہ ’اِس ڈیجیٹل ماحول میں سائبر کرائم کا شکار ہونے سے بچاؤ کے لیے اب کمپیوٹر سائنس کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ اب اتنا آسان ہوگیا ہے کہ میری 80 سالہ والدہ اور آٹھ سالہ بیٹا بھی کرسکتے ہیں‘۔ ان کے مطابق آن لائن موجود مفت پلیٹ فارمز کی مدد سے کوئی بھی شخص دھوکا دہی یا سائبر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کی ایک مثال ڈیپ فیل سے بنائی گئی تصویر تھی جس نے مئی 2023 میں سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا، تصویر میں پینٹاگون کے قریب دھماکے کا منظر دکھایا گیا تھا، جسے کئی ویری فائیڈ ایکس اکاؤنٹس نے بھی شیئر کیا۔

اس تصویر نے چند ہی لمحوں میں دہشت اور افواہوں کو جنم دیا اور اسٹاک مارکیٹ میں ہلچل مچ گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ تصویر بالکل جعلی تھی اور مکمل طور پر اے آئی سے بنائی گئی ڈیپ فیک تھی۔

یہ سب کیسے بنتا ہے؟

ماہرین کے مطابق جعل ساز صرف چند گوگل سرچز، سوشل میڈیا پروفائلز، لنکڈ اِن معلومات، چند سیکنڈ کی آڈیو یا تصویر اکٹھی کرکے کسی کی مکمل جعلی شناخت بنا لیتے ہیں۔ آواز، لہجہ، بولنے کے انداز سمیت سب کچھ نقل کیا جا سکتا ہے۔

چند سیکنڈ کی ویڈیو یا ایک تصویر سے کسی بھی شخصیت کی نقل تیار کرنا ممکن ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اے آئی کسی شخص کی آواز اور چہرے کی نقل بنا سکتا ہے مگر ایسے سوالات جن کے جواب صرف متعلقہ فرد جانتا ہو، بنیادی تحفظ ثابت ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا ’اے آئی آپ کی نقل تو بنا لے گا مگر وہ وہ نہیں جانتا ہوگا جو آپ جانتے ہیں۔‘

سالوں کے اپگریڈز کے باوجود چیٹ جی پی ٹی غلط معلومات کیوں دے رہا ہے؟

بھروسہ نہیں، تصدیق کریں

تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی انسانی آنکھ، تجربے اور فیصلوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق اُس سال 5 لاکھ سے زائد ڈیپ فیک ویڈیو اور آڈیو کلپس سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025 کے دوران یہ تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ماہرین اب ’Trust but Verify‘ کے بجائے ’Never Trust Always Verify‘ کی سوچ اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس نئی حقیقت میں احتیاط اور تصدیق ہی واحد طریقہ ہے۔ اگر کوئی ویڈیو یا آڈیو آپ میں شدید جذباتی ردعمل پیدا کرے، تو یہی لمحہ سب سے زیادہ احتیاط کا ہے۔ جعلی مواد اکثر اسی مقصد کے لیے بنایا جاتا ہے۔

کاروباری دنیا میں کسی کال، ویڈیو کال یا وائس میسج پر بڑے فیصلے نہ کیے جائیں۔ ہمیشہ دوسرے چینلز سے تصدیق کریں۔ افراد اور اداروں کو اپنی ٹیموں اور ناظرین کو ڈیپ فیک خطرات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ یہ صرف ٹیکنالوجی نہیں، ایک نیا ماحول ہے جس میں سمجھ بوجھ بقا کی شرط بن گئی ہے۔

ٹیکنالوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ’seeing is believing‘ ایک کمزور اصول بن گیا ہے۔ حقیقت اور جعل سازی کے درمیان لکیر دھندلا چکی ہے اور حفاظت کا واحد راستہ ہے کہ ’باخبر رہیں، اندھا بھروسہ نہ کریں اور ہر چیز کی تصدیق کریں‘۔

Artificial Intelligence

Fake Videos

synthetic media

AI generated media

rising threat of deepfakes

Deepfakes