28ویں آئینی ترمیم کی تصدیق، ملک میں 12 نئے صوبوں کی خبریں زیر گردش

خبروں میں زیر گردش 12 نئے صوبوں کے نام کیا ہیں؟
شائع 16 نومبر 2025 01:26pm

ستائیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان میں اب اٹھائیسویں ویں آئینی ترمیم کے بارے میں قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں۔ ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم ملک میں انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی، اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی اور لوکل باڈیز کے بااختیار بنانے کے حوالے سے اہم ہو سکتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں بھی ہیں کہ اس نئی ترمیم کے تحت ملک میں نئے صوبے تشکیل دیے جاسکتے ہیں۔

چند روز قبل سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا تھاکہ 27ویں ترمیم نے پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں میں طاقت کے توازن کو بہتر بنایا اور دفاعی امور کو مضبوط کیا، اب وقت ہے کہ 28ویں ترمیم کے لیے تیاری کی جائے۔

سینئیر صحافی کامران خان کے مطابق 28ویں ترمیم میں ممکنہ طور پر نئے صوبے یا انتظامی یونٹس قائم کرنے، اختیارات اور وسائل کی منتقلی، اور لوکل باڈیز کے مالیاتی اور انتظامی اختیارات کو آئینی تحفظ دینے جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبائی حکومتوں کو مالی وسائل لوکل حکومتوں تک پہنچانے کے لیے پرووینشل فنانس کمیشن کے قیام اور اس کے فارمولے کو آئینی تحفظ دینے پر غور کیا جا رہا ہے، بالکل اس طرح جیسے نیشنل فنانس کمیشن کے تحت وفاقی حکومت صوبوں کو ریونیو فراہم کرتی ہے۔

AAJ News Whatsapp

صحافی زاہد گشکوری نے بھی دعویٰ کیا کہ 28ویں ترمیم کا فوکس الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ کی مدت، دوہری شہریت اور نئے صوبوں کی تشکیل پر ہوگا۔

اس حوالے سے مزید غیر مصدقہ تفصیلات بیان کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی سیاست پر نظر رکھنے والے ’ایکس‘ اکاؤنٹ ’ساؤتھ ایشیا انڈیکس‘ نے لکھا کہ ”28ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملک کے صوبائی نقشے کو دوبارہ ترتیب دینے اور 12 نئے صوبے بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔“

دعوے کے مطابق، ”ان نئے صوبوں میں اسلام آباد، مغربی پنجاب، جنوبی پنجاب، بہاولپور، پوٹھوہار، کراچی، سندھ، مہران، بلوچستان، گوادر، خیبر اور ہزاره کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہیں۔“

تاہم اس دعوے کی سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے اور یہ معلومات فی الحال قیاس آرائی کی بنیاد پر گردش کر رہی ہیں۔

اٹھائیسویں ترمیم میں کیا ہے؟ سرکاری دعوے

وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں بتایا کہ 28ویں ترمیم پر کام جاری ہے اور اس میں تعلیم، آبادی اور لوکل باڈیز کے اختیارات کے معاملات شامل ہوں گے۔ اس ترمیم کے تحت آرٹیکل 140 اور این ایف سی سے متعلق اقدامات متوقع ہیں۔

اس حوالے سے وزیر مملکت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے بھی نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”28ویں آئینی ترمیم آ سکتی ہے، وزیراعظم نے بھی عندیہ دے دیا ہے، اٹھائیسویں ترمیم خاص طور پر آرٹیکل 140 اور این ایف سی سے متعلق ہوگی“۔

انہوں نے کہا کہ ”پیپلزپارٹی نے 28ویں آئینی ترمیم پر رضامندی ظاہر کردی ہے“۔

کامران خان کے مطابق ممکن ہے کہ اس نئی ترمیم کے تحت اہم وفاقی وزارتیں جیسے تعلیم، صحت اور آبادی فلاح و بہبود کے اختیارات وفاق کے پاس رہیں جبکہ لوکل حکومتوں کے کردار کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ اقدامات عملی شکل اختیار کر لیں تو یہ پاکستان میں اختیارات کی نیچے کی سطح تک منتقلی اور مقامی سطح پر بہتر انتظامی ڈھانچے کے لیے ایک اہم قدم ہوگا۔

خیال رہے کہ ابھی تک یہ تمام معلومات قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں اور 28ویں ترمیم کی حتمی شکل اور شمولیت کے بارے میں باضابطہ اعلان کا انتظار ہے، لیکن سیاسی حلقے اسے پاکستان کی آئینی اور انتظامی اصلاحات کے لیے ایک اہم موقع قرار دے رہے ہیں۔

Rana Sanaullah

27th Constitutional Amendment

28th Constitutional Amendment

New Provinces in Pakistan