لال قلعہ دھماکا: جائے وقوعہ سے فوجیوں کے زیر استعمال گولیاں برآمد، بھارت کی کہانی مشکوک ہوگئی
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں لال قلعہ کے قریب ہونے والے خوفناک کار دھماکے کی تحقیقات پر سنگین سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جائے وقوعہ سے تین عدد نائن ایم ایم گولیاں ملی ہیں، جن میں سے دو صحیح سلامت جبکہ ایک کا خالی خول ملا ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ گولیاں عام شہری استعمال نہیں کر سکتے، یہ صرف سیکیورٹی فورسز یا مخصوص اجازت نامہ رکھنے والوں کے پاس ہوتی ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، سیکیورٹی حکام نے خود اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جائے دھماکا سے کوئی پستول، بندوق، یا ہتھیار کا کوئی حصہ نہیں ملا۔
فوجی نوعیت کی گولیاں وہاں کیسے پہنچیں؟ دھماکے کے بعد یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بھارتی ادارے اب تک دینے سے قاصر ہیں۔
تحقیقات سے جڑے افسران کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم سراغ ہے، مگر ہتھیار نہ ملنے کی وجہ سے معاملہ اور بھی مشکوک ہو گیا ہے۔
فارنزک ماہرین یہ بھی جانچ رہے ہیں کہ آیا یہ گولیاں وہاں چلائی گئی تھیں یا کسی نے جان بوجھ کر تحقیقات کو غلط سمت میں موڑنے کے لیے وہاں رکھ دی تھیں۔
یہ امر بھی انتہائی اہم ہے کہ بھارتی پولیس نے اپنے اہلکاروں کو دی گئی گولیوں کی بھی گنتی کی اور تمام گولیاں پوری نکلیں۔ یعنی یہ کارتوس کسی ڈیوٹی پر موجود اہلکار کے نہیں تھے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے زیر استعمال نائن ایم ایم کی گولیاں وہاں کیسے پہنچیں؟
اس دھماکے نے بھارت میں پہلے سے جاری سوالات کو مزید گہرا کر دیا ہے، خصوصاً اس پس منظر میں کہ بھارت ماضی میں اپنی ریاستی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے خود ساختہ واقعات رچانے کی تاریخ رکھتا ہے۔
لال قلعہ جیسے سخت سیکیورٹی والے علاقے میں اس نوعیت کی گولیاں ملنا بھارت کی اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔
خیال رہے کہ لال قلعہ دھماکے میں 13 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ کہیں بھارت ایک بار پھر اپنے ہی عوام کے سامنے ایک نیا ڈرامہ تو نہیں رچا رہا؟ کیا دھماکے کے پیچھے وہی پرانا حربہ ہے جس میں اپنے اندرونی مسائل چھپانے کے لیے کسی بے گناہ کو دہشت گرد قرار دے کر دنیا کی توجہ ہٹائی جائے؟
تحقیقات جاری ہیں، مگر برآمد ہونے والی فوجی گولیاں اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ لال قلعہ دھماکے کی کہانی وہ نہیں جو بھارت دکھانا چاہتا ہے۔ یہ واقعہ صرف دہشت گردی کا نہیں بلکہ بھارتی اداروں کی مشکوک سرگرمیوں کا بھی پتہ دے رہا ہے، جسے دنیا نظر انداز نہیں کر سکتی۔















