غزہ میں موسم سرما کی پہلی بارش، فلسطینیوں کے ہزاروں خیمے ڈوب گئے
غزہ کی پٹی میں موسمِ سرما کی پہلی بارش نے پہلے سے اجڑے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔ بارش کے ساتھ شدید سردی نے خیموں میں مقیم خاندانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے جبکہ اسرائیلی پابندیوں کے باعث شیلٹر اور بنیادی امدادی سامان غزہ پہنچ ہی نہیں پا رہا۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ کی پٹی میں ہفتے کی رات ہونے والی موسمِ سرما کی پہلی بارش نے پناہ گزین کیمپوں میں تباہی مچا دی۔ شدید بارش کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کے خیمے پانی میں ڈوب گئے، کھانے پینے کی اشیا بھی بہہ گئیں۔ کئی خاندان ساری رات پانی نکالتے اور اپنے خیمے بچانے میں مصروف رہے۔ بارش کے بعد سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا۔
بہت سے فلسطینی اپنے خیموں کو بچانے کے لیے اردگرد گڑھے کھودتے رہے جبکہ کئی خاندان تباہ حال عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، حالانکہ ان میں سے کچھ عمارتیں گرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
غزہ سٹی کی ایک بے گھر فلسطینی خاتون نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس کا خیمہ راتوں رات مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے، کمبل اور بستر تک مہیا نہیں کر پا رہی کیونکہ اس کے کئی خاندان افراد، بشمول شوہر، اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔
امدادی سامان داخل نہ ہونے پر لاکھوں افراد خطرے میں
اقوامِ متحدہ اور امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خیموں اور عارضی پناہ گاہوں میں رہنے والے فلسطینی شدید موسم کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہے۔
امدادی تنظیموں کے مطابق تقریباً 2 لاکھ 60 ہزار فلسطینی خاندان، یعنی تقریباً 15 لاکھ افراد، سخت سرد موسم میں انتہائی خطرے سے دوچار ہیں۔
انروا کا کہنا ہے کہ اس کے پاس 13 لاکھ فلسطینیوں کے لیے شیلٹر کا سامان موجود ہے، مگر اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے غزہ میں داخل نہیں ہو پا رہا۔
غزہ میں حماس خاموشی سے پھر سرگرم
انروا کے سربراہ فلیپ لازارینی نے کہا کہ غزہ میں لوگوں کی حالت ”مصیبت پر مصیبت“ بن چکی ہے کیونکہ خیمے لمحوں میں پانی سے بھر جاتے ہیں اور لوگوں کا باقی ماندہ سامان بھی بھیگ جاتا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق غزہ کے مرکزی علاقے اززویدہ میں ہزاروں خاندان بارش سے بھرے خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ والدین بچوں کے لیے گرم کپڑے، جوتے اور کمبل خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
مصیبتوں کے درمیان امید: امتحانات میں فلسطینی طالبات کی شاندار کامیابی
شدید مشکلات، نقل مکانی، تباہ حال گھر اور خیموں میں زندگی گزارنے کے باوجود اسرائیلی مظالم فلسطینیوں کے تعلیمی سفر کو نہ روک سکے۔ انٹرکے امتحانات میں 11 فلسطینی بچیوں نے 99 فیصد نمبر لے کر ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔
نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی غزہ کے تباہ شدہ علاقوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی اور خاندانوں نے مشکل حالات کے باوجود اپنی بیٹیوں کی کامیابی کا جشن منایا۔
جنوبی افریقہ میں بِنا اجازت فلسطینیوں سے بھرے جہاز کی آمد، تحقیقات شروع
تاہم دوسری جانب یہ بھی کڑوی حقیقت ہے کہ درجنوں طلبہ و طالبات اسرائیلی بمباری میں شہید ہو چکے ہیں۔
جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی گولہ باری جاری
ہفتے کی رات اسرائیلی فوج نے خان یونس کے جنوب مشرقی علاقوں پر فلیئرز فائر کیے، جو عموماً حملوں کی نشاندہی کے لیے چھوڑے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے جنوبی خان یونس اور شمالی غزہ سٹی کے علاقوں پر فضائی حملے بھی کیے گئے۔
غزہ امن منصوبے کو کن خطرات کا سامنا ہے؟
الجزیرہ کے مطابق جنگ بندی کے باوجود ”پیلا زون“ کہلانے والی حد بندی لائن کے پیچھے اسرائیلی فضائی حملوں کی آوازیں مسلسل سنائی دے رہی ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں رہنے والے خاندانوں کی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اب تک اسرائیلی کارروائیوں میں 260 فلسطینی شہید اور 632 زخمی ہو چکے ہیں۔ جبکہ مجموعی طور پر اسرائیلی بمباری سے اب تک 69 ہزار 182 فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 70 ہزار 703 زخمی ہو چکے ہیں۔














