نیتن یاہو کو سزا سے بچانے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیلی صدر کو خط
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی ہم منصب آئزک ہرزوگ کو خط لکھا ہے جس میں اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے لیے صدارتی معافی کی باضابطہ درخواست کی گئی ہے۔ نیتن یاہو کے خلاف عدالت میں بدعنوانی کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔
اسرائیلی صدر کے دفتر کی جانب سے بدھ کے روز جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے موصول ہونے والے خط میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے خلاف مقدمات میں صدارتی معافی کی استدعا کی گئی ہے۔
خط میں ٹرمپ نے نیتن یاہو کے لیے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’نیتن یاہو نڈر اور فیصلہ کن وزیرِاعظم رہے ہیں اور انکی بدولت اسرائیل امن کے نئے دور میں داخل ہورہا ہے۔‘
ٹرمپ نے خط میں کہا ہے کہ ’میں اسرائیلی عدالتی نظام کی خودمختاری کا احترام کرتا ہوں تاہم مجھے یقین ہے کہ بی بی (نیتن یاہو) کے خلاف مقدمہ سیاسی اور بِلاجواز ہے۔ وہ طویل عرصے سے میرے ساتھ ایران کے خلاف لڑتے آئے ہیں‘۔
واضح رہے کہ نیتن یاہو پر تین مختلف مقدمات میں فراڈ، رشوت ستانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات ہیں۔ یہ مقدمات ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں شروع ہوئے تھے۔ جس میں مختلف کاروباری شخصیات سے تقریباً 7 لاکھ شیکل (تقریباً 2 لاکھ 10 ہزار ڈالر) مالیت کے تحائف وصول کرنے کا الزام بھی شامل ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا کہ وہ ٹرمپ کی اسرائیل کی حمایت اور خطے میں کردار کو سراہتے ہیں، تاہم کسی بھی شخص کو صدارتی معافی کے لیے طے شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق درخواست دینا لازمی ہے۔
اسرائیلی صدر کے دفتر کے مطابق صدارتی معافی کے لیے متعلقہ شخص، اس کے وکیل یا قریبی اہلِ خانہ کی جانب سے باضابطہ اپیل جمع کرانا ضروری ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل میں صدر کا عہدہ علامتی حیثیت رکھتا ہے تاہم انہیں بعض غیر معمولی حالات میں مجرموں کو معافی دینے کا قانونی اختیار حاصل ہے۔
ٹرمپ اس سے قبل بھی نیتن یاہو کے مقدمات پر تبصرہ کر چکے ہیں۔ رواں سال جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا تھا کہ نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ ’غیر منصفانہ اور مضحکہ خیز انتقامی کارروائی‘ ہے۔
گزشتہ ماہ یروشلم میں اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران بھی انہوں نے صدر ہرزوگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا، ’صدر صاحب! آپ انہیں معافی کیوں نہیں دیتے؟ سِگارز اور شیمپین، آخر اسکی پرواہ کس کو ہے؟‘
یہ بیان انہوں نے اُن الزامات کے پس منظر میں دیا تھا جس میں نیتن یاہو پر تاجروں سے قیمتی تحائف، بشمول شیمپین اور سِگار لینے کا الزام ہے۔
نیتن یاہو کے خلاف مقدمے کی سماعت 2020 میں شروع ہوئی تھی جو بعد ازاں مشرقِ وسطیٰ کی کشیدگی اور جنگوں کے باعث بار بار ملتوی ہوتی رہی، تاہم ابھی تک اس مقدمے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے۔
















