خلا میں بسنے کے بعد انسانوں کو کون سے کیڑے کھانے پڑیں گے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں اربوں لوگ روزانہ مختلف اقسام کے کیڑے کھاتے ہیں۔ یہ خیال سننے میں عجیب لگ سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے، اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق، انسان اب تک دو ہزار سے زائد اقسام کے کیڑوں کو خوراک کے طور پر استعمال کر چکے ہیں۔
یورپی سائنس دانوں نے خلا میں طویل مدتی انسانی قیام کے لیے ایک غیر معمولی مگر دلچسپ حل پر تحقیق شروع کی ہے اور وہ ہے کیڑوں کو انسانی خوراک کا حصہ بنانا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق یورپین اسپیس ایجنسی نے خوراک، حیاتیات اور خلائی سائنس کے ماہرین کے ساتھ مل کر یہ جانچنے کا آغاز کیا ہے کہ کیا کیڑے خلا میں انسانوں کے لیے پائیدار غذائی ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس تحقیق کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ خلا میں رہنے والے خلابازوں کے لیے ایسی خوراک کیسے تیار کی جائے جو غذائیت سے بھرپور ہو، آسانی سے پیدا کی جا سکے، اور ماحولیاتی طور پر بھی نقصان دہ نہ ہو۔
ڈکشنری میں نئی اصطلاح ’7-6‘ کا اضافہ، اس کا مطلب کیا ہے؟
تحقیقی ماہرین کے مطابق، جھینگر اور میل ورم جیسے کیڑے پروٹین، صحت مند چکنائیوں، آئرن اور زنک جیسے اہم معدنیات سے بھرے ہوتے ہیں۔ جھینگر مکمل پروٹین کا ذریعہ ہیں کیونکہ ان میں وہ تمام نو ضروری امینو ایسڈز موجود ہوتے ہیں جو انسانی جسم کے لیے لازمی ہیں، جب کہ میل ورمز میں بھی پروٹین کے ساتھ صحت مند چکنائیاں بڑی مقدار میں پائی جاتی ہیں۔
سویڈش یونیورسٹی آف ایگرکلچرل سائنسز کے پروفیسر آسا برگگرین، جو اس تحقیق کے مرکزی مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ کیڑے خلائی ماحول میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جسمانی دباؤ برداشت کر سکتے ہیں۔ جرنل فرنٹیئرز اِن فزیالوجی میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ جاندار ایسے مواد کھا کر اپنی نشوونما کر سکتے ہیں جو انسان نہیں کھا سکتا، اور یوں وہ خلا میں ایک مفید اور پائیدار غذائی ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس منصوبے کا ایک اور مقصد زمین اور خلا دونوں میں ماحولیاتی اثرات کو کم کرنا ہے۔ روایتی مویشی پالنے کے مقابلے میں کیڑے نہ صرف کم جگہ، پانی اور خوراک استعمال کرتے ہیں بلکہ ان سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی بہت کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپین اسپیس ایجنسی انہیں ایک ایسا متبادل سمجھتی ہے جو مستقبل میں ماحولیاتی لحاظ سے ذمہ دار خلائی سفر کے لیے موزوں ہو سکتا ہے۔
نر ڈولفنز مادہ کو رجھانے کے لیے ’وِگ‘ پہننے لگیں
یورپی خلائی ادارہ پہلے ہی ’گھروں میں موجود جھینگر‘ اور ’یلو میل ورم‘ کو انسانی استعمال کے لیے منظوری دے چکا ہے، اور اب سائنس دان ان کی افزائش کو مائیکرو گریویٹی یعنی بے وزن خلائی ماحول میں بہتر بنانے پر تحقیق کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جھینگر پہلا جاندار تھا جو خلا میں زندہ رہا اور اس نے اپنی مکمل زندگی کا چکر بھی وہیں پورا کیا۔ اس تجربے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کیڑے خلا میں نہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ نسل بھی بڑھا سکتے ہیں۔
یہ تحقیق نہ صرف خلائی زندگی کے امکانات کو نئی جہت دیتی ہے بلکہ زمین پر بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک کے بحران کے لیے بھی ایک عملی حل پیش کر سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں، خلا میں سفر کرنے والے انسانوں کے ساتھ ساتھ زمین پر رہنے والے لوگ بھی اپنی پلیٹوں میں پروٹین سے بھرے کیڑوں کو ایک عام اور پائیدار خوراک کے طور پر قبول کرنے لگیں۔
















