1 لاکھ 11 ہزار مکڑیوں کا شاہکار، یورپ کے غار میں دنیا کا سب سے بڑا جالا دریافت

البانیہ اور یونان کی سرحد پر واقع غار میں 106 مربع میٹر تک پھیلا ہوا دیوہیکل جالا، دو اقسام کی مکڑیوں کی اجتماعی رہائش کا پہلا ثبوت ہے
شائع 10 نومبر 2025 03:53pm

سائنس دانوں نے البانیہ اور یونان کی سرحد پر موجود ایک تاریک غار میں دنیا کا سب سے بڑا مکڑیوں کا جالا دریافت کیا ہے، جہاں 1 لاکھ 11 ہزار سے زائد مکڑیاں اندھیرے میں پل بڑھ رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت نہ صرف حیران کن ہے بلکہ پہلی بار دو عام مکڑیوں کی اقسام کو ایک ہی جال میں اکٹھے رہتے دیکھا گیا ہے۔

بین الاقوامی ماہرین نے البانیہ اور یونان کی سرحد پر واقع “سلفر کیو” نامی غار کے اندر ایک ایسا عظیم الشان جالا دریافت کیا ہے جو ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے بڑا مکڑیوں کا جالا قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ جالا غار کے ایک تنگ راستے کی دیواروں پر 106 مربع میٹر (تقریباً 1140 مربع فٹ) کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ جالا ہزاروں چھوٹے، قیفی شکل کے جالوں سے مل کر بنا ہے، جو ایک ساتھ جڑ کر ایک بڑے جال کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔

یہ انکشاف حال ہی میں سب ٹیرینین بایالوجی نامی سائنسی جرنل میں 17 اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کیا گیا۔

AAJ News Whatsapp

تحقیق کے مرکزی مصنف، پروفیسر اِستوان یوراک جو رومانیہ کی سیپینتیا ہنگرین یونیورسٹی آف ٹرانسلوینیا سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ دریافت پہلی بار کسی ایسی کالونی کی موجودگی ظاہر کرتی ہے جہاں دو مختلف اقسام کی مکڑیاں اکٹھے رہتی ہیں اور باہمی تعاون سے زندگی گزارتی ہیں۔

یوراک کے مطابق، جب انہوں نے پہلی بار اس جال کو دیکھا تو ان کے احساسات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہ تھا — صرف حیرت، احترام اور شکرگزاری محسوس ہوئی۔

یہ غار قدرتی طور پر ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس کے زیرِ اثر تیزابی عمل سے وجود میں آیا۔ سلفر کی موجودگی نے یہاں ایسا ماحول بنایا ہے جو نہ صرف مکڑیوں بلکہ ان کے شکار، یعنی بغیر کاٹنے والی مچھروں کے لیے بھی موزوں ہے۔

کیوبا کے قریب سمندر میں 6 ہزار سال قدیم شہر دریافت

تحقیق کے مطابق، غار کے اندر مکڑیوں کی دو اقسام پائی گئیں (جسے عام طور پر گھر کی مکڑی کہا جاتا ہے) اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جال میں تقریباً 69 ہزار مکڑیاں موجود ہیں۔

ڈی این اے ٹیسٹ سے تصدیق ہوئی کہ یہی دو اقسام اس بڑے جال کی اصل رہائشی ہیں۔

اہرام مصر کے اندر ’غیر معمولی‘ دریافت، تعمیر کس نے کیا؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ عام طور پر یہ دونوں اقسام ایک دوسرے کی شکاری ہوتی ہیں، مگر غار کے مستقل اندھیرے نے ان کے رویے میں تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ روشنی کی کمی کے باعث وہ ایک دوسرے کا شکار نہیں کرتیں بلکہ ایک ہی ماحول میں بقائے باہمی کے ساتھ رہتی ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ مکڑیاں ان مچھروں پر گزارا کرتی ہیں جو غار کی اندرونی سطح پر موجود سفید رنگ کے سلفر بیکٹیریا سے پیدا ہونے والی پتلی تہہ پر پلتے ہیں۔

یہ سلفر سے بھرپور خوراک مکڑیوں کے اندرونی جرثومی نظام کو متاثر کرتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے اندر موجود بیکٹیریا عام مکڑیوں کے مقابلے میں کم تنوع رکھتے ہیں۔

مزید یہ کہ جینیاتی تجزیے سے پتا چلا کہ غار میں رہنے والی مکڑیاں باہر کی دنیا میں پائی جانے والی اپنی ہی نسلوں سے مختلف ہو چکی ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ انہوں نے تاریک ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لیا ہے۔

پروفیسر یوراک کا کہنا ہے کہ “ہم اکثر سمجھتے ہیں کہ ہم کسی جاندار کو مکمل طور پر جان چکے ہیں، لیکن قدرت ہمیں اب بھی حیران کر سکتی ہے۔ کچھ جاندار انتہائی حالات میں ایسے رویے ظاہر کرتے ہیں جو عام حالات میں ممکن نہیں ہوتے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کالونی قدرتی ارتقا کی ایک نادر مثال ہے جسے محفوظ رکھنا ضروری ہے، چاہے اس غار کا محلِ وقوع دو ممالک کی سرحد پر کیوں نہ ہو۔

یوراک اور ان کی ٹیم آئندہ اس منفرد کالونی پر مزید تحقیق کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ سلفر غار کے اندر پائے جانے والے اس “مکڑیوں کے شہر” کے مزید راز سامنے آ سکیں۔

discovered

living in pitch black

arachnids

with 111,000

inside 'Sulfur Cave

World's biggest spiderweb