آئینِ پاکستان: 52 سال میں 26 ترامیم کی مختصر کہانی
پاکستان کا آئین 1973 میں اپنایا گیا اور اس کے 52 سال کے سفر میں اس میں 26 اہم ترامیم کی گئی ہیں۔ یہ ترامیم ملک میں جمہوری اور فوجی دور حکومت کے دوران آئینی دفعات میں ہونے والے بڑے بدلاؤ کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس دوران آئین کے 270 مختلف آرٹیکلز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق، فوجی حکمرانوں، مارشل لا اور منتخب حکومتوں دونوں نے 1973 کے آئین میں وسیع پیمانے پر ترامیم کیں۔ جنرل ضیاءالحق نے معطل آئین میں 97 ترامیم کیں، جبکہ جنرل پرویز مشرف نے 37 ترامیم متعارف کروائیں۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 سے 1977 کے دوران سات آئینی ترامیم متعارف کروائیں۔ پہلی ترمیم، جو 1974 میں منظور ہوئی، اس کے تحت 17 آرٹیکلز میں تبدیلی کی گئی، جس میں وفاق کے زیر انتظام اور منسلک علاقوں کا انضمام اور سیاسی جماعتوں کی مالی ذرائع کی شفافیت شامل تھی۔
دوسری ترمیم میں احمدیوں (قادیانی و لاہوری گروپس) کو غیر مسلم قرار دیا گیا، جبکہ تیسری ترمیم میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کے لیے پیشگی حراست کی مدت بڑھا دی گئی۔
بھٹو دور کی دیگر ترامیم میں عدالتی مدت ملازمت، صوبائی نمائندگی اور وزیراعظم کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے طریقہ کار پر زور دیا گیا۔
بھٹو کے بعد جنرل ضیاءالحق نے 1985 سے 1987 کے درمیان تین بڑی ترامیم متعارف کروائیں، اس دوران 27 آئینی دفعات میں تبدیلی کی گئی اور صدارتی احکامات و مارشل لا کے تحت قوانین کو آئینی تحفظ دیا گیا۔
مارشل لا کے خاتمے کے بعد، بے نظیر بھٹو کی حکومت نے 1989 میں 11ویں ترمیم منظور کی، جس نے پارلیمانی مدت تین سے چار سال کر دی۔ بعد ازاں، 1991 میں 12ویں ترمیم کے ذریعے خصوصی اور اپیلٹ عدالتیں قائم کی گئیں۔
نواز شریف کے دوسرے دور میں چار ترامیم کی گئیں، جن میں 13ویں ترمیم شامل تھی، اس میں آٹھویں ترمیم کے تحت محدود کیے گئے وزیراعظم کے اختیارات بحال کیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں منظور ہونے والی اٹھارہویں ترمیم سب سے وسیع آئینی اصلاحات میں شمار ہوتی ہے، جس کے تحت 102 دفعات میں تبدیلی کی گئی۔ اس ترمیم میں فوجی دور کے اثرات کو ختم کیا گیا، صوبائی خودمختاری بڑھائی گئی، اور صدر کے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے اختیارات محدود کیے گئے۔
اس ترمیم میں چیف الیکشن کمشنر اور سروس چیفس کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی نئے سرے سے ترتیب دیا گیا۔
اس کے بعد ہونے والی دیگر ترامیم میں عدلیہ کی تقرریوں کو بہتر بنایا گیا، الیکشن کمیشن کو اختیارات دیے گئے اور دہشت گردی کے مقدمات میں تیز رفتار انصاف کے لیے 21ویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔
2024 میں پارلیمان نے 26ویں ترمیم منظور کی، جس میں عدالتی اصلاحات شامل ہیں۔ اس ترمیم کے تحت آئینی بینچز، عدالتی کونسل و کمیشن، ہائی کورٹ ججز کے تبادلے کے طریقہ کار، اور چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت کی حد متعین کی گئی۔
پچاس سال کے اس سفر میں پاکستان کے آئین کی ترقی جمہوریت، فوجی اثر و رسوخ، اور ادارتی اصلاحات کے درمیان مسلسل توازن اور جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے۔












