دہلی میں ’مصنوعی بارش‘ کروانے کا تجربہ ناکام کیوں ہوا؟
نئی دہلی میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے حکومت کی جانب سے کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریعے ’مصنوعی بارش‘ کرانے کا تجربہ کیا گیا، تاہم شہر کے کسی حصے میں بارش نہ ہوسکی۔
بھارتی دارالحکومت میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور دھند کے خاتمے کے لیے حکومت کی جانب سے مصنوعی بارش کروانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد منگل کی روز کی گئی ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کے باوجود بارش نہ ہو سکی۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق نئی دہلی میں کیے گئے کلاؤڈ سیڈنگ کے حالیہ تجربے پر تقریباً 1 کروڑ 28 لاکھ روپے خرچ کیے گئے، تاہم یہ مہنگا تجربہ مصنوعی بارش لانے میں ناکام رہا۔
یہ تجربہ منگل کے روز کیا گیا، جس میں مخصوص طیارے کے ذریعے نئی دہلی کے مختلف علاقوں میں ’سلور آئیوڈائیڈ‘ سے بھرے شعلے فضا میں چھوڑے گئے۔ ان دو الگ تجربات میں سے کسی سے بھی بارش نہیں ہوئی۔
کلاؤڈ سیڈنگ کیا ہوتی ہے؟
کلاؤڈ سیڈنگ ایک موسمیاتی طریقہ کار ہے جس میں بادلوں میں مخصوص کیمیکل شامل کر کے مصنوعی طور پر بارش پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سلور آئیوڈائیڈ، پوٹاشیم آئیوڈائیڈ اور سوڈیم کلورائیڈ جیسے کیمیکلز کو بادلوں میں ’بیج‘ کے طور پر شامل کیا جاتا ہے، تاکہ پانی کے بخارات اِن ذرات کے گرد جمع ہو کر بارش کے قطرے تشکیل دیں۔
کلاؤڈ سیڈنگ کا طریقہ کار
موسمیاتی ماہرین ریڈار اور سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے ان بادلوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن میں نمی اور گہرائی مناسب ہو۔ جس کے بعد مخصوس طیارے یا ڈرون کے ذریعے مخصوص بادلوں پر یہ مواد چھڑکا جاتا ہے۔
ڈرون یا طیارہ مخصوص بادلوں کے اندر یا نچلے حصے میں شعلے چھوڑتا ہے، اور ہر شعلہ تقریباً 2 سے 2.5 کلوگرام وزنی ہوتا ہے۔ جس کے بعد خارج شدہ ذرات اردگرد موجود پانی کے بخارات کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ گرم بادلوں میں پانی کے قطرے، جبکہ سرد بادلوں میں برف کے کرسٹل بنتے ہیں۔
جیسے جیسے قطرے آپس میں ملتے ہیں، ان کا وزن بڑھتا ہے اور وہ زمین کی طرف گرنے لگتے ہیں، جس سے بارش یا برفباری ہوتی ہے۔
یہ مصنوعی بارش فضا میں معلق آلودہ ذرات (PM2.5، PM10 ) جو فضائی معیار خراب کرتے ہیں، اور گردوغبار کو نیچے بٹھا دیتی ہے، جس سے فضائی معیار وقتی طور پر بہتر ہوجاتا ہے۔
نئی دہلی میں کیے گئے تجربے کے نتائج
نئی دہلی میں کیے گئے تجربے کے دوران آٹھ ’فلیئرز‘ بادلوں میں چھوڑے گئے، جن میں نمی کا تناسب 15 سے 20 فیصد تھا۔ تجربے کے دوران سسنا 206 ایچ (Cessna 206H) طیارے کے ذریعے دہلی کے شمالی اور مشرقی علاقوں کے اوپر ایسے شعلے چھوڑے گئے۔
طیارے نے براری، مایور وہار، نوئیڈا اور قریبی علاقوں میں 16 (ہر تجربے میں آٹھ) فلیئرز چھوڑے۔ تاہم محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق اُس وقت بادلوں میں نمی صرف 10 سے 15 فیصد تھی، جو مصنوعی بارش کے لیے ناکافی ہے۔
موسمیاتی ماہرین کے مطابق کلاؤڈ سیڈنگ صرف اُن بادلوں پر ممکن ہے جن میں نمی مناسب ہو، جو کہ نئی دہلی کی خشک سردیوں میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ تاہم مصنوعی بارش اگر ہو بھی جائے تو آلودگی میں کمی صرف وقتی ہوتی ہے، مستقل حل کے لیے اخراجات اور فصلوں کی باقیات جلانے جیسے عوامل پر قابو پانا ضروری ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ’سلور آئیوڈائیڈ‘ کی باقیات مٹی اور پانی میں زہریلے اثرات بھی پیدا کر سکتی ہیں۔
کلاؤڈ سیڈنگ منصوبے کی لاگت
حکومت نے اس منصوبے کے لیے 3 کروڑ 21 لاکھ روپے مختص کیے تھے، اور پانچ تجربات کی منظوری دی گئی تھی، یعنی ہر تجربے کی اوسط لاگت تقریباً 64 لاکھ روپے تھی۔ منگل کو کیے گئے دو تجربات پر کُل ملا کر 1 کروڑ 28 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
اپوزیشن کی حکومت پر سخت تنقید
اس منصوبے کی ناکامی پر عام آدمی پارٹی نے بی جے پی حکومت پر سرکاری پیسہ ضائع کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اپوزیشن رہنما سوربھ بھاردواج نے ایکس پر ایک ویڈیو جاری کی اور دہلی حکومت کا خوب مذاق اڑایا۔ انہوں نے کہا کہ ’اس تجربے کے بعد جو تھوڑے بہت بادل موجود تھے وہ بھی چلے گئے‘۔
حکومت کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ بارش نہیں ہوئی، مگر ان علاقوں میں جہاں تجربہ کیا گیا، وہاں ایئر کوالٹی انڈیکس میں کچھ بہتری دیکھی گئی۔ حکومت کے مطابق، چند دنوں میں مزید تجربات کیے جائیں گے، جن میں شمالی دہلی اور اطراف کے علاقے شامل ہوں گے کیونکہ ہواؤں کا رخ شمال کی جانب بتایا جا رہا ہے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ’یہ پورا منصوبہ دکھاوا اور عوام کو گمراہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘ جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ یہ سائنسی عمل موسمی حالات پر منحصر ہے، اس لیے اس کے نتائج فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتے۔
Aaj English





















