روس کا نئے ’جوہری کروز میزائل‘ کا تجربہ کامیاب، تمام دفاعی نظام ناکام
روس نے جدید ترین اور ایٹمی توانائی سے چلنے والے نئے کروز میزائل کاتجربہ کامیاب ہونے کا اعلان کیا ہے۔ روس کا دعویٰ ہے کہ یہ میزائل جدید ہتھیاروں کے اُس پروگرام کا حصہ ہے جسے کسی بھی دفاعی نظام سے روکنا تقریباً ناممکن ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اتوار کے روز روسی افواج کے ایک کمانڈ سینٹر کے دورے کے دوران بتایا کہ یہ میزائل روس کے جدید ہتھیاروں کے اُس پروگرام کا حصہ ہے جسے مستقبل کے کسی بھی دفاعی نظام سے روکنا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا ہے۔
روسی میڈیا کے مطابق یہ میزائل ایٹمی توانائی سے چلنے والا کروز میزائل ہے، یعنی اسے روایتی ایندھن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس خصوصیت کے باعث اس کی پرواز کا وقت اور فاصلہ تقریباً لامحدود ہو سکتا ہے۔
اس بریفنگ کے دوران صدر پیوٹن فوجی وردی (کیِموفلاج) میں ملبوس تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ’بورویسٹنک‘ کے تمام اہم تجربات اب مکمل ہو چکے ہیں اور اب اس میزائل کو تعیناتی کے آخری مرحلے کی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔

روسی صدر نے کہا کہ ’بورویسٹنک‘ دنیا کا ایک منفرد اور انتہائی طاقتور ہتھیار ہے، جو کسی دوسرے ملک کے پاس موجود نہیں۔ ان کے مطابق “یہ واقعی ایک انوکھا ہتھیار ہے، ایسا جس کی صلاحیتوں کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔”
روسی فوج کے سربراہ جنرل ویلری گیراسیموف نے صدر پیوٹن کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ تجربے کے دوران یہ میزائل تقریباً 14 ہزار کلومیٹر (8700 میل) کا فاصلہ طے کرتے ہوئے 15 گھنٹے تک فضا میں رہا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین جنگ نہ رکنے کی صورت میں روس پر مزید پابندیوں کی حکمتِ عملی تیاری کرلی
بورویسٹنک روس کے اُس جدید ہتھیاروں کے منصوبے کا حصہ ہے جس کا اعلان صدر پیوٹن نے 2018 میں کیا تھا۔ اُس وقت انہوں نے کہا تھا کہ روس ایسی “ناقابلِ شکست” دفاعی ٹیکنالوجی تیار کر رہا ہے جو امریکا اور نیٹو کے کسی بھی دفاعی نظام کو ناکام بنا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ’بورویسٹنک‘ میزائیل 2019 میں بھی خبروں کی زینت بنا تھا، جب اس کے ایک ناکام تجربے کے دوران آرکٹک کے علاقے میں مشن میں شامل افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تاہم ماہرین کے مطابق اس طرح کے ہتھیار ماحولیاتی طور پر خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ کسی بھی ناکام تجربے کی صورت میں تابکاری پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا کی جانب سے روس پر یوکرین جنگ روکنے کے لیے دباؤ کے طور پر پابندیاں نافذ کی جارہی ہیں۔ دونوں ممالک کے صدور کی ملاقات اور روسی تیل کمپنیوں پر پابندی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
Aaj English

















