’دم نکل گیا تو پولیس والوں نے لاش پر بھی ڈنڈے مارے‘: پولیس حراست میں نوجوان کے قتل میں نئے انکشافات
کراچی میں اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) کی مبینہ حراست میں جاں بحق بہاولپور کے نوجوان عرفان بلوچ کے کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، پولیس نے مقدمے میں نامزد دو اہلکاروں کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ واقعے کے خلاف مقتول کے لواحقین نے سہراب گوٹھ پر تابوت اٹھا کر شدید احتجاج کیا جو سات گھنٹے بعد ختم ہوا۔
22 اکتوبر کو کراچی میں ایس آئی یو پولیس کی حراست میں نوجوان عرفان مبینہ تشدد سے جاں بحق ہوگیا تھا۔ پولیس سرجن کی رپورٹ میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی کہ عرفان کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے۔
ڈی آئی جی جنوبی سید اسد رضا کے مطابق دو اہلکار اے ایس آئی عابد شاہ اور کانسٹیبل آصف علی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شواہد ملے تو کیس کو دفعہ 302 (ارادتاً قتل) کے تحت تبدیل کیا جا سکتا ہے، جبکہ مزید اہلکار ملوث نکلے تو انہیں بھی گرفتار کیا جائے گا۔
پولیس نے سول لائنز تھانے میں ریاست کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی ہے، جس میں قتلِ خطا (دفعہ 319) اور مشترکہ نیت (دفعہ 34) کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمے میں اے ایس آئی عابد، سرفراز، آصف علی، وقار، ہمایوں بیگ اور فیاض علی نامزد کیے گئے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق 22 اکتوبر کو عرفان سمیت چار افراد کو ایس آئی یو نے کینٹ اسٹیشن کے قریب لِلّی برج سے گرفتار کیا۔ بعد ازاں دوران تفتیش عرفان کی حالت بگڑ گئی، اور اسے اطلاع دیے بغیر اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ دم توڑ گیا۔
تاہم لواحقین کا الزام ہے کہ پولیس نے عرفان کو رات بھر موبائل وین میں گھمایا، پھر تھانے میں بدترین تشدد کیا۔ عرفان کے چچا اظہر ضیا محمد نے آنکھوں میں آنسو لیے بتایا کہ ”پولیس اہلکاروں نے اسے انسان نہیں جانور سمجھ کر مارا، حتیٰ کہ جب وہ مر گیا تو لاش پر بھی ڈنڈے برسائے گئے۔“
عرفان کے ساتھی نے بھی تصدیق کی کہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اذیت دے کر قتل کیا گیا۔
واقعے کے بعد مقتول کے لواحقین اور علاقہ مکینوں نے سہراب گوٹھ ایدھی سردخانے کے باہر تابوت اٹھا کر دھرنا دیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ احتجاج سات گھنٹے جاری رہا، جس کے باعث مرکزی سڑک بند رہی۔ بعد ازاں پولیس اور لواحقین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوئے اور دھرنا ختم کر دیا گیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ مقدمہ قاتلوں کی شکایت پر درج کیا گیا ہے، جبکہ ورثا کی درخواست پر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
ادھر پولیس حکام کا مؤقف ہے کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کی جا رہی ہیں اور کسی اہلکار کو رعایت نہیں دی جائے گی۔ تاہم مقتول کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ کیس کو ’قتلِ خطا‘ کے بجائے ’قتل عمد‘ قرار دینے اور تمام ملوث اہلکاروں کی گرفتاری تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
عرفان بلوچ کی میت بعد ازاں آبائی علاقے بہاولپور روانہ کر دی گئی، جہاں آج اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔ کراچی میں پولیس تشدد سے ایک اور بے گناہ جان کے ضیاع نے شہریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
Aaj English

















