Aaj News

اسرائیل نے غزہ کی بین الاقوامی امن فورس میں ترکیہ کی شمولیت پر اعتراض کردیا

غزہ امن فورس پانچ ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہوگی، قیادت مصر کو دی جاسکتی ہے، امریکی اخبار
شائع 25 اکتوبر 2025 06:11pm

امریکی اخبار نے دعوٰی کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں تعینات کی جانے والی بین الاقوامی فوج میں ترکیہ کے شامل ہونے پر اعتراض کے بعد اب یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ترکی اس فورس کا حصہ نہیں ہوگا۔

دی گارجین کے مطابق شام کے مسئلے پر اسرائیل اور ترکیہ کے تعلقات کشیدہ ہیں، اور اسرائیلی حکومت ترک صدر رجب طیب اردوان کو حماس کے قریب سمجھتی ہے۔

تاہم ترکی کو فورس سے خارج کرنا متنازعہ ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ ملک ٹرمپ کے 20 نکاتی جنگ بندی منصوبے کے ضمانت دہندگان میں شامل ہے اور سب سے مضبوط مسلم افواج میں شمار ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق غزہ میں تعینات کی جانے والی بین الاقوامی فورس پانچ ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہوگی، اور اس کی قیادت ممکنہ طور پر مصر کے پاس رہے گی۔ دیگر ممالک، جیسے انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات چاہتے ہیں کہ فورس اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت کام کرے، اگرچہ یہ خود اقوام متحدہ کی امن فوج نہیں ہوگی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بین الاقوامی فورس امریکی کی زیر قیادت ’سول-ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر‘ (CMCC) کے ساتھ مل کر کام کرے گی، جو جنوبی اسرائیل کے شہر کریات گیٹ میں قائم ہے۔ جس کا افتتاح امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے منگل کے روز کیا تھا۔

AAJ News Whatsapp

امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے جمعہ کو اسرائیل میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ”غزہ کی تعمیر نو کے لیے قائم کی جانے والی بین الاقوامی فورس میں شمولیت کے لیے اسرائیل کی رضامندی ضروری ہے تاکہ سیکیورٹی خلا پیدا نہ ہو۔“ انہوں نے مزید کہا کہ فورس کا مقصد غزہ کی تعمیرِ نو کے آغاز کے بعد امن و استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

دوسری جانب ترکی نے فورس میں اپنے دستے فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے، لیکن اسرائیل نے واضح کر دیا کہ وہ ترک فوجیوں کی شرکت قبول نہیں کرے گا۔ یاد رہے کہ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور دنیا کا پہلا مسلمان ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔

اُدھر حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں نے غزہ کے انتظام کو ایک ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے حوالے کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ قاہرہ میں ہونے والے اجلاس کے بعد حماس کی ویب سائٹ پر جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ نئی کمیٹی عرب ممالک اور عالمی اداروں کے تعاون سے غزہ کا انتظام سنبھالے گی تاکہ جنگ کے بعد علاقے میں استحکام اور انتظامی بحالی ممکن بنائی جا سکے۔