Aaj News

سادہ ڈیوائس کی لگژری قیمت: دنیا اسمارٹ فون انڈسٹری کی غلام کیسی بنی؟

بڑی کمپنیوں کی تشہیر، برانڈ کی ساکھ اور 'اسٹیٹس سمبل' بننے کی خواہش قیمتوں کو آسمان پر رکھے ہوئے ہے۔
شائع 19 اکتوبر 2025 01:06pm

کبھی اسمارٹ فون کو جدید دور کی علامت سمجھا جاتا تھا، مگر اب یہ ہماری روزمرہ ضرورتوں میں شامل ہو چکا ہے۔ بجلی، شناختی کارڈ یا بٹوے کی طرح اس کے بغیر زندگی کا تصور مشکل ہے، لیکن افسوس کہ اس بنیادی سہولت کی قیمت آج بھی لگژری شے کی طرح وصول کی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں اسمارٹ فون مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ پیداوار کی لاگت نہیں بلکہ ’برانڈنگ اور مارکیٹنگ کا جادو‘ ہے، وہی جادو جو صارفین کو ہر سال ایک نیا ’الٹرا، پرو، میکس‘ ماڈل خریدنے پر اُکساتا ہے۔

امریکا یا ایشیائی ممالک جیسے چین اور بھارت میں عام صارف بیس سے پچاس ڈالر تک کے جدید فون خرید سکتا ہے۔ یہی فون کالز، نیوی گیشن، بینکنگ، سوشل میڈیا اور ویڈیو اسٹریمنگ جیسی تمام بنیادی ضرورتیں بخوبی پوری کرتے ہیں۔ ان میں کمی صرف فینسی فیچرز یا چمکدار ڈیزائن کی ہوتی ہے، یعنی وہ چیزیں جو زیادہ تر صارفین کو دراصل ’چاہیے‘ نہیں، مگر ’چاہتے‘ ضرور ہیں۔

دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اب بھی ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ قیمتوں والے ماڈلز کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ فرق ٹیکنالوجی میں نہیں نفسیات میں ہے۔ بڑی کمپنیوں کی تشہیر، برانڈ کی ساکھ اور “اسٹیٹس سمبل” بننے کی خواہش قیمتوں کو آسمان پر رکھے ہوئے ہے۔

صنعتی رپورٹس کے مطابق ایک اعلیٰ درجے کے اسمارٹ فون کی تیاری کی لاگت اصل قیمت کا بمشکل نصف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی فون کی قیمت 1200 ڈالر ہے تو اسے بنانے، اسمبل کرنے اور مارکیٹ تک پہنچانے پر کل خرچ تقریباً 450 سے 550 ڈالر کے درمیان آتا ہے۔ باقی تمام رقم محض منافع، تشہیر، اور ”برانڈ ویلیو“ کے نام پر لی جاتی ہے۔

اسی طرح اسٹوریج بڑھانے جیسے معمولی فیچرز پر بھی صارف سے سیکڑوں ڈالر اضافی لیے جاتے ہیں، حالانکہ کمپنی کو اس اپ گریڈ کی لاگت چند ڈالر سے زیادہ نہیں پڑتی۔

ریسرچ کا بہانہ یا منافع کا جواز؟

کمپنیاں اکثر قیمتوں کے دفاع میں ”ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ“ (R&D) کا جواز دیتی ہیں، مگر اعدادوشمار کچھ اور کہتے ہیں۔ اگر ایک کمپنی ایک ارب ڈالر تحقیق پر خرچ کرے اور پچاس ملین فون فروخت کرے، تو فی فون تحقیق کی قیمت محض بیس ڈالر بنتی ہے۔ یوں چند ماہ میں تمام اخراجات پورے ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ آتا ہے وہ خالص منافع ہوتا ہے۔

AAJ News Whatsapp

جلد ہی قیمتوں کا زوال اور صارف کی بیداری

دلچسپ بات یہ ہے کہ فلیگ شپ فونز اپنی قدر تیزی سے کھو دیتے ہیں۔ ریلیز کے ایک سال کے اندر ان کی قیمت تقریباً نصف رہ جاتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ صارفین اب آہستہ آہستہ زیادہ دیر تک اپنے پرانے فون استعمال کرنے لگے ہیں، وہ اب ہر نئے ورژن کے فریب میں نہیں آتے۔

نیا رویہ: فون ایک ضرورت، نہ کہ فیشن

آج اسمارٹ فون محض تفریح یا فیشن نہیں بلکہ ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ہم اسے بینکنگ، صحت، تعلیم، سفری رہنمائی اور ہنگامی رابطے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پھر کیوں ہم اس پر لگژری کی قیمت چکائیں؟

وقت آ گیا ہے کہ صارفین خود فیصلہ کریں کہ وہ ’برانڈ کے جال‘ میں رہنا چاہتے ہیں یا سمجھ داری کا مظاہرہ کر کے سستے، مستعمل یا پرانے مگر کارآمد فون خریدنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ جب تک ہم ’نئے ماڈل‘ کے جنون میں مبتلا رہیں گے، کمپنیاں ہمیں ’ضرورت کے نام پر عیش و عشرت‘ بیچتی رہیں گی۔

Prices

Smartphone

high prices