تنظیم کا ’غیر مسلح‘ ہونے کا معاملہ ابھی طے نہیں ہوا، حماس کے سینئر رہنما کا انکشاف
حماس کے ایک سینئر رہنما نے کہا ہے کہ تنظیم غزہ میں عبوری مدت کے دوران سیکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے اور وہ اس بات کی یقین دہانی نہیں کرا سکتی کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دے گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز ’کو دیے گئے ایک انٹرویو میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے کہا کہ گروپ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے پانچ سال تک کی جنگ بندی پر تیار ہے، بشرطیکہ فلسطینیوں کو مستقبل میں ریاست کے قیام کی امید دلائی جائے۔
حماس رہنما محمد نزال کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق کے چند ہی دن گزرے ہیں، اور یہ تبصرے اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ غزہ میں جنگ کے مکمل خاتمے کی راہ میں اب بھی بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔
بدھ کو دیے گئے انٹرویو میں جب نزال سے پوچھا گیا کہ آیا حماس ہتھیار ڈالنے پر راضی ہوگی، تو انہوں نے کہا کہ، ”میں ہاں یا نہیں میں جواب نہیں دے سکتا۔ صاف بات ہے، یہ اس منصوبے کی نوعیت پر منحصر ہے۔ آپ جس غیر مسلح کرنے کے منصوبے کی بات کر رہے ہیں، وہ کیا ہے؟ اور ہتھیار کس کے حوالے کیے جائیں گے؟“
ان کا مزید کہنا تھا کہ، “اگلے مرحلے کے مذاکرات میں اسلحے سے متعلق معاملات صرف حماس ہی نہیں بلکہ دیگر فلسطینی مسلح گروہوں کے بھی ہوں گے، لہٰذا اس پر وسیع تر فلسطینی اتفاقِ رائے درکار ہوگا۔
انٹرویو میں حماس رہنما محمد نزال کا کہنا تھا کہ حماس کو یرغمالیوں کی باقی لاشوں کو رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ان کے مطابق حماس نے 28 میں سے کم از کم نو لاشیں واپس کر دی ہیں، جبکہ مزید کی بازیابی میں تکنیکی مسائل درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ترکی یا امریکا اس تلاش میں مدد فراہم کریں گے۔
نزال کا مزید کہنا تھا کہ، ”مذاکرات کے دوسرے مرحلے کا آغاز جلد کیا جائے گا۔“
حماس کے سینئیر رہنما کا یہ مؤقف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے سے واضح اختلاف کو ظاہر کرتا ہے، جس کے تحت آئندہ مذاکرات میں حماس کے ہتھیار جمع کرنے اور غزہ کے انتظامی امور پر غور کیا جانا ہے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر نے محمد نزال کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر قائم ہے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔
اسرائیلی دفتر کے بیان میں کہا گیا کہ،“حماس کو پہلے مرحلے میں تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا تھا، جو اس نے نہیں کیے۔ حماس کو معلوم ہے کہ ہمارے یرغمالیوں کی لاشیں کہاں ہیں۔ معاہدے کے مطابق حماس کو غیر مسلح ہونا ہے، کوئی اگر مگر نہیں۔ حماس کو 20 نکاتی منصوبے پر عمل کرنا ہوگا، اور ان کے پاس وقت کم ہے۔”
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے 29 ستمبر کو اعلان کردہ منصوبے میں کہا تھا کہ حماس کو تمام یرغمالیوں کی فوری واپسی کے بعد غزہ کا انتظام ایک ٹیکنوکریٹک کمیٹی کے حوالے کرنا ہوگا، جو ایک بین الاقوامی عبوری ادارے کی نگرانی میں کام کرے گی۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے حماس کی فوجی صلاحیت ختم، اس کی سیاسی حکمرانی کا خاتمہ، اور غزہ سے اسرائیل کے لیے دوبارہ خطرہ نہ بننے کی ضمانت ملے گی۔
Aaj English
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔