حماس، اسرائیل معاہدہ نہ ہوا تو امریکا اپنا متبادل فارمولا پیش کرے گا، وائٹ ہاؤس
امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس اور اسرائیل غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے پر متفق نہ ہوئے، تو امریکی حکومت اپنا متبادل فارمولہ پیش کرے گی تاکہ خطے میں فوری جنگ بندی اور امن کی راہ ہموار کی جا سکے۔
امریکا کی وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری کیرولائنا لیوٹ نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ اس معاملے میں مکمل طور پر شامل ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یرغمالیوں کی رہائی جلد از جلد ممکن بنائی جائے۔
انہوں نے کہا ”صدر ٹرمپ غزہ میں امن کے خواہاں ہیں اور اگر فریقین کسی معاہدے پر نہیں پہنچے تو ہم اپنی طرف سے ایک ٹھوس اور قابلِ عمل فارمولہ پیش کریں گے۔“
وائٹ ہاؤس کے مطابق اس وقت غزہ میں تکنیکی ٹیموں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، جن میں بنیادی توجہ اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر ہے۔ کیرولائنا لیوٹ نے مزید کہا کہ ”یرغمالیوں کی رہائی کے بعد ہماری اگلی ترجیح مستقل امن کے قیام کی ہوگی۔“
واضح رہے کہ مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات کا آغاز جاری ہیں، جن میں اسرائیل اور حماس کے وفود شریک ہیں۔ یہ بات چیت امریکا کی طرف سے پیش کردہ امن منصوبے کے تحت ہو رہی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق مذاکرات براہِ راست نہیں بلکہ بالواسطہ ہو رہے ہیں، جن میں مصری حکام ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بات چیت کا محور مرحلہ وار جنگ بندی، یرغمالیوں کا تبادلہ اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی ہے۔
ایک سوال کے جواب لیوٹ نے کہا کہ ”تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ضروری ہے اور صدر ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی فریم ورک کو قبول کیا جا چکا ہے۔“
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی انتظامیہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔
لیوٹ نے بتایا کہ مذاکرات میں اسرائیلی یرغمالیوں کے علاوہ فلسطینی سیاسی قیدیوں کی فہرست بھی زیر غور ہے، جو پہلی بار کسی ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکار نے ’سکیورٹی قیدیوں‘ کے طور پر بیان کی ہے، تاہم یہ ممکنہ طور پر محض زبان کی لغزش ہو سکتی ہے۔
جب لیوٹ سے پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ کی جانب سے 5 اکتوبر کی حماس کو دی گئی آخری تاریخ اب بھی برقرار ہے، تو انہوں نے کہا کہ حماس نے جمعہ کو ایک واضح بیان جاری کر کے صدر کے فریم ورک کو قبول کیا ہے اور اسی لیے تکنیکی مذاکرات جاری ہیں۔
مذاکرات کی مدت کے بارے میں پوچھے جانے پر ترجمان وائٹ ہائوس لیوٹ نے کوئی خاص جواب دینے سے گریز کیا، لیکن کہا کہ ”یہ ضروری ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد طے پائے تاکہ یرغمالی آزاد ہوں اور اس کے بعد ہم مستقل اور دیرپا امن قائم کرنے کی طرف بڑھ سکیں، تاکہ غزہ دوبارہ ایسی جگہ نہ بنے جو اسرائیل یا امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔“
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے دو مراحل ہیں، پہلا یرغمالیوں کی رہائی اور دوسرا جنگ کے بعد غزہ کی پائیدار امن و استحکام کی فراہمی ہے۔
داخلی سیاسی تنازع بھی شدت اختیار کرگیا
کیرولائنا لیوٹ نے بتایا کہ غزہ تنازع کے ساتھ ساتھ امریکا میں سیاسی کشیدگی بھی عروج پر ہے۔ حکومتی شٹ ڈاؤن سے بچنے کیلئے ہمیں 5 ڈیموکریٹس کے ووٹ درکار ہیں، مگر ڈیموکریٹس رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ”ڈیموکریٹس نے ہزاروں امریکیوں کی نوکریاں داؤ پر لگا دی ہیں۔ ان کی ترجیحات میں غیر قانونی ایلینز پہلے اور امریکی عوام بعد میں ہیں۔“
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے نمائندوں پر دباؤ ڈالیں تاکہ حکومت کھولی جا سکے اور ملکی معیشت کو مزید نقصان نہ ہو۔
Aaj English

















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔