ڈاکٹرز کی خراب ہینڈ رائٹنگ کس طرح ٹھیک ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹروں کی لکھائی ہمیشہ سے ایک معمہ رہی ہے۔ اکثر مریض، فارماسسٹ اور یہاں تک کہ دوسرے ڈاکٹر بھی یہ سمجھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں کہ نسخے پر آخر لکھا کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف الجھن نہیں بلکہ بعض اوقات غلط دوا یا غلط خوراک دینے جیسے خطرناک نتائج بھی پیدا کر سکتا ہے۔
یہی مسئلہ حال ہی میں بھارتی پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں بھی سامنے آیا، جب ایک کیس کے دوران جج صاحب خود ایک ڈاکٹر کی لکھی ہوئی میڈیکو لیگل رپورٹ پڑھنے میں ناکام ہوگئے۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں کی لکھائی اتنی ناقابلِ فہم نہیں ہونی چاہیے،اتنی اہم دستاویز کو اس طرح لکھا گیا۔ اس کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ میڈیکل کی تعلیم میں ہینڈ رائٹنگ کی تربیت شامل کی جائے اور دو سال کے اندر اندر نسخے ڈیجیٹل کرنے کی ہدایت دی۔
آخر ڈاکٹرز کی لکھائی خراب کیوں ہوتی ہے؟ اس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جو تقریباً ہرملک کے ہیلتھ سسٹم میں مشترک ہیں۔
کچھ دلچسپ رائے آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹرز کو دن میں درجنوں مریض دیکھنے ہوتے ہیں اور انہیں وقت کی کمی کا سامنا ہوتا ہے، اس لیے وہ جلدی میں لکھتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اسپتالوں میں مریضوں کی بھیڑ، انتظامی ذمہ داریاں اور طویل ڈیوٹی گھنٹے ذہنی و جسمانی تھکن پیدا کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ ڈاکٹرز کو فارماسسٹ پر بھروسہ ہوتا ہے۔ چونکہ فارماسسٹ انہی ڈاکٹروں کے نسخے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں، اس لیے ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ ان کی لکھائی بہرحال سمجھ لی جائے گی۔
ڈاکٹر کا ذہن تشخیص، علاج اور دوا کے فیصلے کرتے وقت اتنی تیزی سے کام کرتا ہے کہ ہاتھ ذہن کے ساتھ رفتار نہیں ملا پاتا۔ مسلسل ایک ہی طرح کی دوائیں لکھنے کی وجہ سے لکھائی ایک ’سب کانشس‘ عمل بن جاتی ہے، جس میں صفائی کی پروا نہیں رہتی۔
اب اس سے کیا نقصان ہوسکتا ہے؟ تو جناب یہ بھی ممکن ہے کہ غلط دوا یا غلط مقدار مریض کی جان کو خطرے میں ڈال دے۔ اس کے علاوہ ایسی تحریر سے عدالتی کارروائیوں میں تاخیر یا ابہام پیدا ہوتا ہے۔ مریض کو دوبارہ ڈاکٹر یا فارماسسٹ کے پاس جانا پڑتا ہے، اور اکثر تو دوائیں خرید کر احتیاط ڈاکٹر کووہ دوائیں دکھانا پڑتی ہیں جس سے علاج میں وقت ضائع ہوتا ہے۔
فارماسسٹ یہ نسخے کیسے سمجھ لیتے ہیں؟
اکثر فارماسسٹ مخصوص ڈاکٹروں کے نسخے پڑھنے کے ماہر ہو جاتے ہیں۔ وہ اندازے سے یا تجربے کی بنیاد پر دوائیں پہچان لیتے ہیں۔ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو ڈاکٹر یا مریض سے تصدیق کرتے ہیں۔ لیکن یہ اندازہ لگانا کبھی خطرناک بھی ہوسکتا ہے اور ایک چھوٹی سی غلطی کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
کیا اس کا حل ممکن ہے؟
جیسے کہ بھارت میں عدالت کے فیصلے کے بعد ملک میں اسپتالوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ نسخے کمپیوٹر پر ٹائپ کر کے دیے جائیں تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ بلکل اسی طرح باقی دنیا میں بھی جہاں زیادہ تر ہاتھ سے ہی نسخے لکھے جاتے ہیں، یہ نظام اپنانا چاہیے۔
بڑے اسپتال عموما کمپیوٹر پر نسخے ٹائپ کر کے پرنٹ کرتے ہیں، لیکن چھوٹے اسپتال اور کلینکس میں اس کو لازم کرنا ہی بہتر ہوگا۔ یہ طریقہ نہ صرف صاف اور محفوظ ہے بلکہ دوا کی معلومات بھی واضح طور پر درج ہوتی ہیں۔ کچھ ممالک میں تو ہدایت دی گئی ہے کہ دواؤں کے نام بڑے حروف (Capital Letters) میں لکھے جائیں تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔
اس کے علاوہ ابتدا سے ہی میڈیکل کالجز میں ہینڈ رائٹنگ اور پریسکرپشن رائٹنگ کی ورکشاپس شامل کی جا سکتی ہیں تاکہ طلبہ صاف لکھنے کے عادی ہوں۔
یہ مسئلہ معمولی نہیں۔ ایک غلط پڑھی گئی دوا جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ نسخے ڈیجیٹل کیے جائیں، اور جہاں ممکن ہو، ہینڈ رائٹنگ کو بہتر بنانے کی تربیت دی جائے۔
Aaj English



















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔