غزہ امن منصوبے پر اسرائیل کی تیاریاں، جنگ بندی کے امکانات کتنے ہیں؟
ایسوسی ایٹیڈ پریس اسرائیل کی فوج نے ہفتہ کو اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ میں جنگ ختم کرنے اور یرغمالیوں کی رہائی کے منصوبے کے پہلے مرحلے کی تیاریوں کو آگے بڑھائے گی۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اسرائیلی قیادت کی ہدایت پر وہ اس منصوبے کے نفاذ کے لیے اپنی تیاریوں کو تیز کرے گی۔ ایک حکومتی اہلکار نے بتایا کہ اسرائیل نے غزہ میں دفاعی حکمت عملی اپنائی ہے اور اس وقت کوئی حملہ نہیں کر رہا، تاہم کسی بھی فوجی کو علاقے سے واپس نہیں بلایا گیا۔
یہ اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جب ٹرمپ نے اسرائیل کو ہدایت دی کہ وہ غزہ پر بمباری بند کرے، کیونکہ حماس نے ان کے امن منصوبے کے کچھ پہلوؤں کو قبول کر لیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ حماس پائیدار امن کے لیے تیار ہے۔
اے پی کے مطابق ٹرمپ کی یہ کوشش ہے کہ وہ جنگ ختم کرے اور یرغمالیوں کو واپس لائے، خاص طور پر اگلے منگل کو ہونے والے حملے کی دوسری سالگرہ سے پہلے۔ اس منصوبے کو عالمی سطح پر وسیع حمایت حاصل ہے اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔
جمعہ کو نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے، جو حماس کے حملے کے بعد شروع ہوئی۔ نیتن یاہو پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ تنازع ختم کریں۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ نیتن یاہو نے شبات کی رات ایک بیان جاری کیا کہ امریکی دباؤ کی وجہ سے وہ ٹرمپ کے منصوبے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق غزہ میں دوسری بڑی عسکری تنظیم فلسطینی اسلامی جہاد نے کہا ہے کہ وہ حماس کے جواب کو قبول کرتی ہے، جس میں انہوں نے ٹرمپ کے منصوبے کے کچھ پہلو تسلیم کیے ہیں۔
دوسری جانب مصر کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق، یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے بات چیت جاری ہے۔ عرب ثالث بھی فلسطینیوں کے درمیان مکالمے کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ وہ غزہ کے مستقبل کے حوالے سے متحد ہوں۔
غزہ کے محکمہ صحت نے بتایا کہ اسرائیل-حماس جنگ میں اب تک 67,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ محکمہ صحت حماس کی حکومت کا حصہ ہے اور اقوام متحدہ اور دیگر ماہرین اس کی رپورٹ کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق، حماس تین دنوں میں باقی 48 یرغمالیوں کو چھوڑے گی اور اپنا اسلحہ بھی ڈالے گی۔ اسرائیل اپنی فوجی کارروائی روک دے گا، قیدیوں کو رہا کرے گا اور انسانی امداد کی اجازت دے گا۔
حماس نے کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی پر راضی ہے لیکن دوسرے مسائل پر فلسطینیوں کے درمیان مزید بات چیت ضروری ہے۔ خاص طور پر حماس کا اسلحہ ڈالنا ابھی مشکوک ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کے مذاکراتی رویے میں تبدیلی ہے لیکن وہ بنیادی طور پر پرانا موقف ہی رکھتی ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ اگر حماس اسلحہ ڈالنے میں ناکام رہی تو وہ دوبارہ حملہ کرے گا۔
ادھر، غزہ میں اب بھی لوگ جنگ کی شدت سے متاثر ہیں۔ اسرائیل کی فوج غزہ شہر کو گھیرے میں رکھے ہوئے ہے اور وہاں سے فرار ہونے والے لاکھوں لوگ پناہ گزین ہیں۔ شہر میں قحط کی حالت پیدا ہو چکی ہے۔
یرغمالیوں کے اہل خانہ بھی پر امید تو ہیں مگر خدشات بھی رکھتے ہیں کہ مذاکرات ناکام ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی کامیابی ہوگی تو اس کا سہرا ٹرمپ کے سر جائے گا کیونکہ وہ ہی اس معاملے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔