’فٹبال نہیں اسپتال چاہئے‘، جین زی کا احتجاج مراکش بھی پہنچ گیا
مراکش میں ”فٹبال ورلڈ کپ 2030“ کی میزبانی کی تیاریوں کے دوران حکومت کو جین زی کے شدید احتجاج کا سامنا ہے۔ شمالی افریقہ کا یہ ملک فی الحال دنیا کا سب سے بڑا فٹبال اسٹیڈیم تعمیر کر رہا ہے، جس کی گنجائش ایک لاکھ پندرہ ہزار افراد پر مشتمل ہوگی۔ تاہم حکومت کے اس 5 ارب ڈالر کے منصوبے نے عوامی غصے کو جنم دیا ہے، کیونکہ شہریوں کا کہنا ہے کہ جب صحت، تعلیم اور روزگار کی صورتحال ابتر ہے، تو فٹبال اسٹیڈیم پر اربوں ڈالر خرچ کرنا ”قومی ترجیحات کی غلط سمت“ ہے۔
یہ احتجاج ”جنریشن زیڈ 212“ نامی گروپ کی قیادت میں ہورہے ہیں، جو اپنے مظاہرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ڈسکارڈ، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام کے ذریعے منظم کر رہا ہے۔ ”212“ دراصل مراکش کے بین الاقوامی ڈائلنگ کوڈ کی نمائندگی کرتا ہے۔
احتجاج کا آغاز 27 ستمبر کو دس مختلف شہروں سے ہوا، جہاں نوجوانوں نے ”ورلڈ کپ نہیں، پہلے صحت!“ اور ”ہمیں فٹبال اسٹیڈیم نہیں، اسپتال چاہئیں!“ کے نعرے لگائے۔ ایک ہفتے میں یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔
’جین زی’ کا نیا خوابوں بھرا ٹرینڈ ’سلیپ میکسنگ‘ کیا ہے؟
حکومت کی جانب سے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک 409 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق اس دوران 260 پولیس اہلکار اور 20 مظاہرین زخمی ہوئے، جبکہ پرتشدد جھڑپوں میں 40 پولیس گاڑیاں اور 20 نجی کاریں نذر آتش کی گئیں۔ ان جھڑپوں میں تین مظاہرین بھی مارے گئے۔
پیر کی رات لقلیعہ شہر میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا، آگ لگانے اور اسلحہ چھیننے کی کوشش کی، جس کے بعد جوابی کارروائی میں ہلاکتیں ہوئیں۔
یہ احتجاج اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ستمبر کے وسط میں جنوبی شہر اگادیر کے ایک اسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں آٹھ خواتین جان کی بازی ہار گئیں۔ رپورٹوں کے مطابق، مظاہرین کی جانب سے کہا گیا کہ اگر بہتر طبی سہولیات، آلات اور عملہ دستیاب ہوتا تو ان کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار مراکشی شہریوں کے لیے 23 ڈاکٹر ہونے چاہئیں، مگر مراکش میں یہ شرح صرف 7.8 فی 10 ہزار ہے، جو عوامی نظامِ صحت کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔
25 سالہ ہاجر بالحسن، جو شہر سطات کی ایک نوجوان کمیونیکیشن مینیجر ہیں، انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے ملک کی بہتری کے لیے سڑکوں پر نکلی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں مراکش چھوڑنا نہیں چاہتی، میں اپنے ملک سے محبت کرتی ہوں، اسی لیے چاہتی ہوں کہ یہ بہتر بنے۔‘
ہاجر کہتی ہیں، ’ہم کوئی غیر معقول مطالبات نہیں کر رہے۔ صحت، تعلیم، روزگار یہ بنیادی ضروریات ہیں۔ اگر حکومت عالمی مقابلے کے لیے اتنی سنجیدہ ہے، تو اپنے عوام کے لیے بھی ویسی ہی سنجیدگی دکھائے۔‘
ان کے مطابق پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہی ہے، گرفتاریاں عموماً بلاجواز کی جا رہی ہیں، اور نوجوانوں میں خوف و غصہ دونوں بڑھ رہے ہیں۔
ایک اور 23 سالہ نوجوان نے بتایا کہ وہ پُرامن مظاہرے میں شامل ہوا لیکن پولیس نے اسے 40 دیگر افراد کے ساتھ حراست میں لے لیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے والد فالج کے بعد سرکاری اسپتال سے علاج نہ کرا سکے، اگر ہمارے پاس کچھ بچت نہ ہوتی تو وہ مر جاتے۔ حکومت ہماری صحت، تعلیم اور روزگار کا خیال نہیں رکھتی، پھر یہ ورلڈ کپ کس کے لیے ہے؟‘
جنریشن زی نے پہلی خاتون وزیر اعظم کا ’ڈسکورڈ‘ پر انتخاب کیسے کیا؟
احتجاج کرنے والے نوجوانوں نے اپنے مطالبات کی فہرست بھی جاری کی ہے جن میں مفت اور معیاری تعلیم، سب کے لیے صحت کی سہولت، مناسب اور سستی رہائش، بہتر پبلک ٹرانسپورٹ، روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور سبسڈی، اجرتوں اور پنشن میں اضافہ، نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع، عربی کے بعد دوسری زبان کے طور پر فرانسیسی کے بجائے انگریزی کو اپنانا شامل ہیں۔
مراکش میں یہ پہلی بار نہیں کہ عوام سڑکوں پر آئے ہوں۔ 1981 کے ”روٹی فسادات“ سے لے کر 2011 کے عرب اسپرنگ تک، ملک میں عوامی احتجاج کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تاہم ”جنریشن زیڈ 212“ کی تحریک اس لیے منفرد ہے کہ اس کی کوئی سیاسی وابستگی یا قیادت نہیں، یہ خالصتاً نوجوانوں کی خودمختار آواز ہے۔
وزیراعظم عزیز اخنوش نے بات چیت کی پیشکش کی ہے، مگر مظاہرین کہتے ہیں کہ وہ ”زبانی وعدوں“ سے تنگ آچکے ہیں اور حقیقی اصلاحات تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
ہاجر بالحسن کہتی ہیں کہ ’ہم فٹبال سے محبت کرتے ہیں، یہ ہماری رگوں میں ہے، لیکن ہم صرف اسٹیڈیم نہیں چاہتے، ہم ایک مضبوط ملک چاہتے ہیں۔ اگر ورلڈ کپ آنا ہے تو ایک فخر مند مراکش میں، نہ کہ ایک بیمار، بے بس قوم میں۔‘
Aaj English
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔