مخصوص نشستوں کا کیس: عدالت کو آئین کی تشریح کرتے ہوئے اسے دوبارہ لکھنے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستوں کی منظوری کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ فریق بنے بغیر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا جب کہ پی ٹی آئی چاہتی تو فریق بن سکتی تھی اور سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کرتے ہوئے اسے دوبارہ لکھنے کا اختیار نہیں ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے۔
تفصیلی فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں جب کہ فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا تاہم تفصیلی فیصلہ آج آیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جاری فیصلے میں کہا گیا کہ تمام ججز کا اتفاق تھا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں تھی اور عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی دونوں اپیلیں متفقہ طور پر خارج کی تھیں جب کہ سنی اتحاد کونسل نے ان اپیلوں کے خارج ہونے کے خلاف کوئی درخواست دائر نہیں کی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کے حقائق کے تناظر میں آرٹیکل 187 کا استعمال نہیں کیا جا سکتا، اس کا اطلاق کرکے ایسے فریق کو فائدہ دیا گیا جو عدالت کے سامنے موجود ہی نہیں تھا جب کہ ارکان اسمبلی کو ڈی نوٹی فائی کیا گیا اور وہ ریلیف دیا گیا جو آئین کے دائرہ کار سے باہر تھا۔
عدالت نے کہا کہ اکثریتی فیصلے نے ریکارڈ اور آئین کے برخلاف سنی اتحاد کونسل کے بجائے تحریک انصاف کو ریلیف دیا، پی ٹی آئی نے کسی بھی مرحلے پر مقدمے میں فریق بننے کی کوشش نہیں کی اسے جو ریلیف مرکزی فیصلے میں ملا تھا وہ برقرار نہیں رہ سکتا۔
حالانکہ تحریک انصاف اس کیس میں فریق بھی نہیں تھی، نہ الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں کے لیے کوئی درخواست دائر کی، نہ پشاور ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا، صرف چیئرمین بیرسٹر گوہر نے عدالتی معاونت کے لیے درخواست دائر کی تھی جو فریق بننے کے لیے نہیں تھی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دی تھیں مگر مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا۔
یاد رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ سمیت 8 ججز نے اکثریت کی بنیاد پر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کالعدم ہے۔
واضح رہے کہ 14 مارچ 2024 کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
12 جولائی 2024 کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔
27 جون 2025 کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 5 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں، عدالت نے مختصر فیصلے میں 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔