بلدیاتی نظام اور سیلاب پر لفظی جنگ: ندیم افضل چن کی تنقید پر عظمیٰ بخاری کا سخت جواب
سیلاب متاثرین کی بحالی پر اتحادی جماعتوں میں اختلافات سامنے آگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی بلدیاتی نظام کا مطالبہ کر رہی ہے، جبکہ پنجاب حکومت تنقید کو جھوٹا قرار دے رہی ہے۔ یہ کشیدگی اتحاد کے اندرونی تناؤ کو ظاہر کرتی ہے۔
پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنما ندیم افضل چن نے آج ایک بار پھر پنجاب حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی کو سیلاب کے نقصانات کی بڑی وجہ قرار دیا۔
ندیم افضل چن نے کہا کہ آپ پنجاب نہیں، گورے کے چھوڑے گئے نظام کے وارث ہیں۔ اگر بلدیاتی نمائندے ہوتے تو سیلاب سے یہ حال نہ ہوتا۔
انہوں نے طنزیہ سوال اٹھایا کہ کیا آئی ایم ایف نے بلدیاتی انتخابات کرانے سے روک رکھا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نہ کسان کو پیسے دیے، نہ خرچہ کم کیا، بلکہ ”35 لاکھ ٹن گندم درآمد کر کے مقامی کسانوں کو نظر انداز کیا گیا۔“
انھوں نے مزید کہا کہ آپ انگلیاں توڑنے کی بات نہ کریں، ہم اتحادی ضرور ہیں، مگر خاموش نہیں رہ سکتے۔
ندیم افضل چن کے بیانات کے بعد پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے بھی پنجاب حکومت پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب حکومت کی زبان قابلِ مذمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو یہ اتحاد صرف اس وقت یاد آتا ہے جب ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
پلوشہ خان نے الزام لگایا کہ رمضان میں بی آئی ایس پی کے ذریعے رقوم تقسیم کی گئیں اور اب جب وہی طریقہ کار سیلاب متاثرین کے لیے تجویز کیا جا رہا ہے تو تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ”آفت زدہ مواقع پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔“
پنجاب حکومت نے ندیم افضل چن کی تنقید کو جھوٹا پروپیگنڈا قرار دیا، پنجاب کی وزیراطلاعات عظمی بخاری نے ندیم افضل چن کو کھری کھری سنا دیں اور کہا کہ پنجاب کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، جو پیکا ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
عظمٰی بخاری نے کہا کہ امید ہے ندیم افضل چن عدالت میں جھوٹی خبر ثابت کرپائیں گے، چن صاحب آپ اچھے خاصے انسان تھے، کچھ دنوں سے پتا نہیں کسی ذہنی تناؤ میں ہیں یا جان بوجھ کر پنجاب کے بارے میں فیک پروپیگنڈا کررہے ہی۔
وزیراطلاعات پنجاب نے کہا کہ قرضے سے متعلق حقائق چھبیس اگست کو میڈیا کے ساتھ شئیر کر دیے تھے۔
Aaj English















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔